یورپی پارلیمنٹ کے ایک وفد نے انسانی حقوق کے مسائل پر ٹھوس اقدامات، تشدد اور جبری گمشدگیوں کے خلاف قانون سازی اور رحم کی درخواستوں کے لیے طریقہ کار میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔
یورپی کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ انسانی حقوق سے متعلق تین رکنی ذیلی کمیٹی نے پاکستان کا دورہ کیا اور یورپی یونین کی جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز پلس (جی ایس پی پلس) اسکیم کے تحت ملک کی ترجیحی تجارتی رسائی کی نگرانی حتمی مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔
یورپی پارلیمنٹ (ایم ای پی) کے ارکان ماریا ایرینا، پیٹر وین ڈیلن اور پیٹراس آسٹریویسیئس پر مشتمل ذیلی کمیٹی نے انسانی حقوق کے مسائل پر بروقت اصلاحات اور قانون سازی کی تبدیلیوں اور انہیں ٹھوس بہتری میں تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اپنے دورے کے دوران ایم ای پیز نے اسپیکر اور اراکین قومی اسمبلی کے علاوہ چیئرمین اور سینیٹ کے اراکین سے ملاقات کی۔
انہوں نے انسانی حقوق اور قانون کے وزراء، سول سوسائٹی کے ارکان، خواتین انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا والوں سے بھی ملاقاتیں کیں۔
بات چیت میں بہت سے مسائل کا احاطہ کیا گیا، جن میں فوجداری نظام انصاف، تشدد اور سزائے موت، معاشی اور سماجی حقوق، گھریلو تشدد کی روک تھام، اور مذہب اور عقیدے اور اظہار رائے کی آزادی شامل ہیں۔
بیلجیئم کی رکن ماریا ایرینا نے کہا کہ ہمارے دورے نے ہمیں پاکستان کو انسانی حقوق کے حوالے سے درپیش چیلنجوں کی مجموعی تصویر حاصل کرنے کا موقع دیا۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے زمینی صورتحال کو حقیقی طور پر تبدیل کرنے کے لیے اہم پیش رفت اور تجدید عہد سال 2023 کے بعد کے جی ایس پی پلس کی درخواست کے عمل میں کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ایک بڑے جی ایس پی ملک کے طور پر پاکستان نے انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، پائیدار ترقی اور گڈ گورننس سے متعلق 27 بین الاقوامی کنونشنز کی توثیق اور ان کی تعمیل کرنے کا عہد کیا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے کمیٹی کے ارکان نے بھی حالیہ سیلاب اور بارشوں سے ہونے والے جانی نقصان پر اظہار افسوس کیا۔
اراکین کو ردعمل اور امدادی سرگرمیوں اور موسمیاتی آفات کے حوالے سے ملک کے خطرات سے بھی آگاہ کیا گیا۔
اراکین نے زور دیا کہ بین الاقوامی برادری کو عالمی کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی مدد کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کرنا چاہیے۔