گستاخانہ بیان پر انڈونیشیا، ملائیشیا کا بھارت سے احتجاج

انڈونیشیا اور ملائیشیا نے بھارت کے سفیروں کو طلب کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے 2 ارکان کی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق توہین آمیز تبصروں پر احتجاج کیا۔

رپورٹ کے مطابق یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا جب مسلم دنیا میں اس حوالے سے شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے، مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک نے بھارت کے سفیروں کو طلب کرلیا اور کویتی سپر مارکیٹ سے بھارتی مصنوعات ہٹا دیں گئیں۔

ہنگامہ کھڑا ہونے کی وجہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ایک ترجمان کے ریمارکس ہیں جسے اب معطل کر دیا گیا ہے۔

بی جے پی کے میڈیا چیف برائے دہلی نے گزشتہ ہفتے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک ٹوئٹ پوسٹ کی تھی جسے بعد میں حذف کر دیا گیا۔

انڈونیشیا کی وزارت خارجہ کی ترجمان تایئکو فائزہشاہ نے کہا کہ جکارتہ میں بھارتی سفیر منوج کمار بھارتی کو طلب کیا گیا، حکومت نے مسلم مخالف بیان بازی کی شکایت درج کرائی۔

ٹوئٹر پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ ‘دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا 2 بھارتی سیاست دانوں کی جانب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ناقابل قبول توہین آمیز بیانات کی سخت مذمت کرتا ہے’۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹوئٹ میں ان پارٹی عہدیداروں کا نام لے کر ذکر نہیں کیا گیا لیکن یہ اشارہ واضح طور پر بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما اور پارٹی کے دہلی میڈیا کے سربراہ نوین جندال کی جانب تھا جنہیں بی جے پی سے نکال دیا گیا ہے۔

ملائیشیا کی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ بھارتی سیاست دانوں کے تضحیک آمیز تبصروں کی بلاامتیاز مذمت کرتے ہیں، بھارتی سفیر کو اپنی بھرپور مذمت سے آگاہ کیا ہے۔

ملائیشیا نے بھارت سے اسلاموفوبیا کو ختم کرنے اور امن و استحکام کے مفاد میں کسی بھی اشتعال انگیز کارروائی کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

بی جے پی کی پارٹی ارکان کو تنبیہ

پیغمبرِ اسلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس پر مسلم ممالک کی جانب سے شدید احتجاج کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ عوامی پلیٹ فارمز پر مذہب کے بارے میں بات کرتے وقت انتہائی محتاط رہیں۔

بھارت بھر کے مسلمانوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں عبادت سے لے کر حجاب کی آزادی تک ہر چیز پر بہت زیادہ دباؤ محسوس کیا ہے، سال 20-2019 میں مہلک فسادات کے بعد حال ہی میں جلوسوں کے دوران ہندو مسلم جھڑپیں ہوئیں۔

بی جے پی کے 2 رہنماؤں نے کہا کہ زبانی ہدایات 30 سے زائد اعلیٰ عہدیداروں اور کچھ وفاقی وزرا کو دی گئی ہیں جو بھارتی نیوز چینلز کے زیر اہتمام مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں۔

نئی دہلی میں بی جے پی کے ایک سینئر رہنما اور وفاقی وزیر نے کہا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ پارٹی کے عہدیدار اس طرح سے بات کریں جس سے کسی بھی برادری کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے، انہیں یقینی بنانا چاہیے کہ پارٹی کے نظریے کو ایک نفیس انداز میں پیش کیا جائے‘۔

تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ ارکان کے ساتھ بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جس میں بیشتر ارکان ہندو ہیں جبکہ بھارت کی ایک ارب 35 کروڑ آبادی کا تقریباً 13 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

گزشتہ ہفتے بی جے پی نے ترجمان کو معطل کر دیا تھا اور ایک اور عہدیدار کو اس وقت نکال دیا جب مسلم ممالک نے بھارتی حکومت سے معافی طلب کی تھی اور سفارت کاروں کو ایک ٹی وی مباحثے کے دوران دیے گئے ریمارکس پر احتجاج کے لیے طلب کیا تھا۔

سعودی عرب، قطر، عمان، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، افغانستان اور ایران ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے گستاخانہ بیان کے خلاف مذمت جاری کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں