کورونا کی قسم ڈیلٹا وائرس کی اوریجنل قسم سے دگنا زیادہ جبکہ ایلفا قسم سے 60 فیصد زیادہ متعدی تصور کی جاتی ہے۔
یہ تو واضح تھا کہ ڈیلٹا بہت تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھنے والی قسم ہے مگر محققین کو یہ علم نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہے۔
مگر اب ماہرین نے اس کی ممکنہ وجہ دریافت کرلی ہے۔
درحقیقت کورونا کی اس قسم میں ایک ایسی میوٹیشن اب تک نظروں سے اوجھل تھی جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ یہ سابقہ اقسام سے بہت زیادہ متعدی کیوں ہے۔
یہ دریافت امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آئی۔
اب تک طبی ماہرین کی جانب سے اسپائیک پروٹین میں تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی جس کو کورونا وائرس خلیات کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہرین نے دریافت کیا کہ ایک غیرواضح میوٹیشن نے وائرس کے ساختی جسم کو اس طرح تبدیل کیا جس کے نتیجے میں وہ زیادہ متعدی ہوگئی۔
آر 20 ایم نامی میوٹیشن ڈیلٹا کو منفرد بناتی ہے جس کے نتیجے میں وائرس اپنے میزبان خلیات میں اپنے جینیاتی کوڈ کو وائرس کی پرانی اقسام کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ انجیکٹ کرتا ہے۔
اس تحقیق کے لیے ماہرین نے اوریجنل وائرس کا ایک فرضی ورژن تیار کیا جس میں آر 203 ایم میوٹیشن کا اضافہ کیا گیا۔
اس کے بعد مشاہدہ کیا گیا کہ کس طرح تدوین شدہ قسم لیبارٹری میں پھیپھڑوں کے خلیات پر اثرات مرتب کرتا ہے اور اس کا موازنہ اوریجنل وائرس سے کیا گیا۔
تحقیقی ٹیم یہ دریافت کرکے حیران رہ گئی کہ آر 203 ایم پرانی اقسام کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ایم آر این اے خلیات میں پھیلا دیتی ہے۔
اس دریافت کی تصدیق کے لیے انہوں نے حقیقی کورونا وائرس میں آر 203 ایم کا اضافہ کیا جس کے نتیجے میں وہ اوریجنل وائرس سے 51 گنا زیادہ متعدی ہوگیا۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ان شبہات کی تصدیق ہوتی ہے کہ کورونا کیقسم ڈیلٹا میں اسپائیک پروٹینز سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہوا۔
آر 203 ایم سے کووڈ کی وہ پروٹین کوٹنگ بدل گئی جو اس کے جینوم کے ارگرد ہوتی ہے، اس کو این پروٹٰن بھی کہا جاتا ہے۔
یہ پروٹٰن جسم میں داخل ہونے کے بعد وائرس کے استحکام اور اخراج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اس تحقیق میں کورونا کی دیگر اقسام میں بھی این پروٹینز کی تبدیلیوں کو دیکھا گیا اور دریافت ہوا کہ وہ بھی خلیات کو متاثر کرنے میں اوریجنل وائرس سے زیادہ بہتر کام کرتی ہیں۔
ایلفا قسم اوریجنل وائرس سے ساڑھے 7 گنا زیادہ جینیاتی مواد خلیات کے اندر جمع کرتا ہے گیما کی شرح 4.2 گنا دریافت ہوئی۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع ہوئے۔