کشمیری استحصال اور فلسطینی استحصال کا انجام

5اگست کو ہندوتوا بھارت کی مودی سرکار نے کئی قتل کئے تھے۔ ایک تو کشمیریوں کو آئینی طور پر ملا ہوا تاریخی تحفظ مہندم کر دیا اور وادی کشمیر کو بھارت کا آئینی حصہ بنا دیا۔ یہ استحصال اور ظلم عظیم تھا۔ دوسرا استحصال اور ظلم ان بھارتی مسلمانوں پر اور بنگالیوں پر کر دیا  جو قیام پاکستان کے وقت بھارت میں رہنے کو ترجیح دے بیٹھے تھے۔ یا جو بنگالی اندرا گاندھی کے زمانے میں‘ بنگلہ دیش بننے کے عمل سے پہلے آسام وغیرہ‘ ملحقہ ریاستوں میں چلے آئے تھے اور انہیں بھارتی شہریت مل گئی تھی۔ مگر مودی سرکارنے شہریت قانون کے نفاذ سے ان بھارتی مسلمانوں اور بنگالیوں کا استحصال کیا‘ ان پر بھی نیا ظلم کیا‘ حسینہ واجد‘ وزیراعظم بنگلہ دیش جو ہمیشہ بھارت نواز رہی‘ مودی نواز بھی رہی تھی‘ شہریت قانون جس سے 18لاکھ کے قریب بنگالی متاثر ہو کر بنگلہ دیش میں جانے پر مجبور ہیں‘ کے سب مودی سرکار سے ناراض ہیں۔ چار ماہ سے بھارتی سفیر وزیراعظم بنگلہ دیش سے ملاقات کا وقت مانگ رہے ہیں مگر حسینہ واجد نے تاحال ان سے نہ صرف ملاقات  نہیں کی بلکہ بنگلہ دیش کو چین کے قریب تر کر دیا ہے۔ یہ  ہے انجام‘ استحصال‘ ہندوتوا ظلم و جبر کا‘ دوسری طرف اسی مذہبی استحصال و ظلم کا جواب آن غزل امر ربی سے چین کی طرف سے یوں مل رہا ہے کہ ریاست اترکھنڈ کے ساتھ بھی چین نے فوج میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ چین و بھارت عسکری مذاکرات کا جو پانچواں دور ہو رہا تھا۔ بھارت کی طرف سے جنرل ہریندر سنگھ اور چین کی طرف سے جنرل لیولن مذاکرات کار تھے‘ یہ پانچواں دور بھی بغیر کسی مفاہمت یا نتیجہ کے ختم ہوگیا ہے۔ یوم استحصال 5اگست کو پاکستان میں منایا جارہا ہے تو مقبوضہ کشمیر میں بھی۔ مظلوم کشمیری آزاد دنیا کی حمایت کے مزید مستحق ہیں۔ کیا آزاد دنیا‘ عالمی رائے عامہ‘ G-5 کے ممالک‘ G-20کے ممالک‘ سیکورٹی کونسل اراکین ممالک کی مزید حمایت‘ مدد کے مستحق نہیں ہیں؟ مگر سیکورٹی کونسل اراکین میں تو خود بھارت آج کل بطور عارضی ممبر بیٹھا ہوا ہے۔ لہٰذا کشمیریوں کی ابتلاء شائد ابھی طویل ہے۔
استحصال‘ ظلم و جبر کا انجام کیا ہوسکتا ہے؟ صدر ٹرمپ نے سفید فام نسل پرستی کو انتہا پسند مسیحیت کے ساتھ ملا کر‘ مسلمان دشمنی کا راستہ بنا کر انتخاب جیتا تھا کہا اور آج وہ خود کمزور ترین انتخابی صورتحال سے دوچار نہیں؟ نیتن یاہو کو‘ جو گزشتہ دس سال سے مسلسل وزیراعظم اسرائیل ہیں‘ انتہا پسند صہیونی کردار‘ فلسطینیوں کا دشمن اعظم‘ وہ اتحادی حکومت کو بجٹ سازی پر قائل نہیں کر سکا‘ لہٰذا جون ‘ جولائی میں اسرائیل کی پارلیمنٹ میں بجٹ پیش نہیں ہوسکا۔ لہٰذا نیتن یاہو کی اتحادی حکومت زمین بوس ہو رہی ہے۔ ایک سال میں چوتھے الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ استحصال‘ جبرو ظلم کا ’’ثمر‘‘ نیتن یاہو اسی طرح وصول کرنے جارہے ہیں جس طرح سفید فام نسل پرستی کے انتہا پسند مسیحیت  کے داعی صدر ٹرمپ ’’ثمر‘‘ وصول کر رہے ہیں۔ وہ  3نومبر کے صدارتی انتخاب سے اس قدر مایوس ہو رہے ہیں کہ پہلے اپنے داماد جیرالڈکشنر کے ذریعے دو دفعہ انتخاب ملتوی کرانے کی تجویز دلوائی اور اب 30جولائی کو خود انتخابات ملتوی کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ جبکہ سیاسی مخالفین‘ دانشور‘ تجزیہ نگار‘ خوفزدہ ہیں کہ صدر ٹرمپ خود کو وائٹ ہائوس میں موجود رکھنے کے لئے ہنگامی حالت‘ ایمرجنسی کا نفاذ کرکے ان ہمہ گیر اختیارات کا استعمال کر سکتے ہیں جو شدید ترین حالت جنگ میں صدر امریکہ کو حاصل ہوتے ہیں؟ اس کا مطلب ہے کہ صدر ٹرمپ کوئی نیا جنگی محاذ کھولنے جارہے ہیں‘ جرمنی سے فوج واپس بلوا رہے ہیں مگر جنوبی  بحیرہ چین میں جاپان‘ آسٹریلیا‘ بھارت سے مل کر بحری جنگ کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ میری نظر میں آبنائے ہرمز کے معاملات کو جواز بنا کر صدر ٹرمپ ایران کے خلاف بھی محاذ کھول سکتے ہیں‘ جبکہ پومپیو نیا امریکی منصوبہ بیان کر چکے ہیں کہ چین میں ’’ رجیم چینج‘‘ یعنی شی کی حکومت کا تختہ الٹا دیا جائے گا ممکن ہے ایران کے حوالے سے بھی یہی حربہ استعمال کیا جائے گا مگر یہ سب کچھ ایمرجنسی نافذ کرنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ یاد رہے امریکہ سی آئی اے‘ رجیم چینج کی کافی پرانی اور زرخیز تاریخ رکھتی ہے۔


کے ایل ایڈوانی حیدر آباد‘ سندھ سے ہجرت کرکے ہندوستان میں گئے تھے‘ وہ سندھی ہندو ہیں۔ انہوں نے ہی بی جے پی کے پلیٹ فارم سے انتہا پسندانہ ہندوتوا ایجنڈے کو فروغ دیا تھا۔ وہ واجپائی حکومت میں ڈپٹی پرائم منسٹر تھے عملاً وزیر داخلہ‘ بابری مسجد کا انہدام اور رام مندر کی تعمیر کا شوشہ انہوں نے ہی چھوڑا تھا تاکہ مذہبی شدت پسندی کو استعمال کرکے وہ وزیراعظم بن سکیں۔ جنرل مشرف نے واجپائی عہد میں جو آگرہ جانے کی ٹھانی‘ واجپائی سے مصافحہ کیا‘ کشمیر پر مصالحت کی کوشش کی تھی‘ اس کو اسی انتہا پسند کے ایل ایڈوانی نے ناکام بنایا تھا۔ مسلمانوں پر جو ظلم ایڈوانی نے کہا‘ بابری مسجد کا انہدام کروایا‘ رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار کیا‘ اس کا ثمر‘ نتیجہ شامت اعمال دیکھیں کہ مودی و امیت شاہ نے پہلے تو اسے بی جے پی میں بہت کمزور کیا‘ پھر اسے ٹکٹ سے محروم کیا‘ اور اب رام مندر کی بنیاد اٹھانے کی تقریب میں بھی مدعو نہیں کیا۔ اس کی ساری مذہبی شدت پسندی دھرے کی دھرے رہ گئی ہے اور کے ایل ایڈوانی اپنی ہی مذہبی شدت پسندی کی آگ میں مودی سرکار کے ذریعے جلا دئیے گئے ہیں۔


دلچسپ معاملہ رام مندر کی بنیاد اٹھانے کے حوالے سے سامنے آگیا ہے۔ مودی سرکار نے جو نجوم کی روشنی میں رام مندر کی بنیاد اٹھانے کا وقت طے کیا ہے ‘ اسے ہندوتوا کے کچھ کردار منحوس قرار دے رہے ہیں۔ ان کے بقول یہ جو وقت طے ہوا ہے‘ نہ صرف منحوس ہے بلکہ اس میں بنیاد اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ کبھی بھی رام مندر بنے گا ہی نہیں۔ گزشتہ ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ نیپال نے اصل ایودھیا نیپال میں قرار دیا ہے جبکہ رام مندر بھی نیپال میں جبکہ موجودہ ایودھیا اور بابری مسجد والی جگہ کے رام مندر کو نیپال والے جعلی کہتے ہیں جبکہ بی جے پی کے سینئر رہنما اوما بھارتی نے پی ایم آفس کے سینئر افسروں سے کہہ دیا ہے کہ وہ ان کا نام 5اگست کو ہونے والے بھومی پوجن میں مدعو افراد کی فہرست سے کاٹ دیں اور یہ کہ انہیں مودی کی صحت کے حوالے سے بھی بہت فکر لاحق ہے۔ یہ ہے استحصال‘ جبر‘ ظلم کا انجام جبکہ سابق وزیر داخلہ پی چومبرم نے کشمیر کو بڑی جیل قرار دیا ہے مگر کشمیر کو جیل بنا کر بھی مودی سرکار مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں