پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے کسی کو بھی لسانی سیاست نہیں کرنی چاہیے اور اس شہر اور صوبے کے عوام الطاف حسین کی سیاست کو رد کر چکے ہیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم کراچی کو سنبھال سکتے ہیں، اگر ہم کراچی کو اس کا حق دلا سکتے ہیں، اگر ہم کراچی میں ترقی کرا سکتے ہیں تو پورے ملک میں ترقی کرا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی ترقی اور یہاں کے عوام کو حقوق کی فراہمی کے لیے ایک بااختیار لوکل گورنمنٹ سسٹم دینا پڑے گا اور ہماری خواہش یہی ہے کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم میں کراچی میں ہماری حکومت بنے اور وفاقی سطح پر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ کا بلدیاتی نظام بہتر ہو رہا ہے، سندھ بھر میں نئے بلدیاتی نظام نے اپنی پہلی مدت مکمل کی اور ہم واحد صوبائی حکومت تھی جنہوں نے اپنے بلدیاتی نظام کی مدت مکمل کی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ بلدیاتی نظام میں بہتری کے نتیجے میں اس کو پچھلے نظام کے مقابلے میں زیادہ اختیارات ملیں گے، اس نظام کے تحت زیادہ ذمے داریاں دی جا رہی ہیں تاکہ وہ اپنا ٹیکس خود اکٹھا کر سکیں، اپنے وسائل کا خود بندوبست کرے اور پراپرٹی ٹیکس کو ہم بلدیاتی حکومت کے حوالے کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم کراچی سے پراپرٹی ٹیکس کی مد میں صرف ایک ارب روپے اکٹھا کرتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم یہ اختیار بلدیاتی حکومت کو دیں گے اور وہ اپنے علاقے کا پراپرٹی ٹیکس جمع کرنا شروع کردیں گے تو یہ ان کے لیے ریونیو کا بڑا سبب بن سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے شہروں کے لیے جو ٹاؤن کا نظام اپنایا ہے اس سے ہمارے بڑے بڑے اضلاع کے مسائل نمٹنے میں مدد ملے گی، جب ان اضلاع میں مزید ٹاؤنز بنیں گے تو نمائندوں کو اتنے بڑے آبادی والے شہر کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے ایم کیو ایم کا نام لیے بغیر کہا کہ ہماری محنت اور کوشش کو کراچی کے عوام دیکھ رہے ہیں کہ ایک جماعت کی 30سال کی کارکردگی ایک طرف اور مرتضیٰ وہاب کی دو تین مہینے کی کارکردگی ایک طرف ہے اور جب پیپلز پارٹی پارٹی کا منتخب نظام ہو گا تو ہم مزید نتائج دکھا سکیں گے۔
بلاول نے عوام کو درپیش معاشی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک یہ آئی ایم ایف ڈیل اسی طرح سے چلتی رہے گی، اس وقت تک پاکستان کے عوام تکلیف میں ہوں گے اور ان کی غلط معاشی پالیسیوں کا بوجھ عوام مہنگائی کی صورت میں اٹھا رہے ہیں، ان کو ایکسپوز کرنا پاکستان پیپلز پارٹی کی ذمے داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ 10 دسمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن اپنے اپنے علاقے میں پئیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف احتجاج کریں گے اور 17 تاریخ کو پاکستان پیپلز پارٹی ملک بھر میں اضلاع کی سطح پر احتجاج کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ نئے بلدیاتی نظام پر کسی کو بھی لسانی سیاست نہیں کرنی چاہیے، یہ لوگ ماضی میں بھی اس طرح کی سیاست کرتے رہے ہیں، ہمیں الیکشن کمیشن کی پابندیوں کی وجہ سے اس قانون کو جلدبازی میں پاس کرنا پڑا ورنہ ہمارا ارادہ تھا کہ مردم شماری کے جھگڑے نمٹانے کے بعد اسی قانون کے حوالے سے ناصرف اپوزیشن بلکہ سول سوسائٹی کے اراکین سے مشاورت کرتے لیکن ہمیں 30نومبر سے پہلے اسے منظور کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس قانون کو پڑھا نہیں ہے ورنہ انہیں پتہ چلتا کہ اس قانون میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف سمیت مختلف جماعتوں کی ان تجاویز کو شامل کیا گیا ہے جس کا وہ ماضی میں وہ مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہاکہ اپوزیشن جماعتیں اس قانون کا خیرمقدم کرنے کے بجائے لسانیت کی غلط سیاست کررہی ہیں جس کی ہم مذمت کرتے ہیں لیکن انہیں بلدیاتی الیکشن میں پتہ چل جائے گا کہ اس شہر اور صوبے کے عوام الطاف حسین کی سیاست کو رد کر چکے ہیں اور الیکشن کے دن بھی رد کریں گے۔
یاد رہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ(ترمیمی) بل 2021 پر ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ شہر میں سب سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے والی تحریک انصاف بھی سراپا احتجاج ہے اور وہ اسے کراچی کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
دوسری گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے متعدد اعتراض لگا کر سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2021 منظور کرنے سے انکار کردیا اور نظرِ ثانی کے لیے دوبارہ سندھ اسمبلی بھجوا دیا ہے۔
گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ یہ بل جمہوریت کی روح کے منافی ہے اور بلدیاتی حکومتوں سے ہر اختیار اور طاقت لے کر انہیں صوبائی حکومت کے ماتحت کردے گا جبکہ ہر وہ ذریعہ بھی بند کردے گا جس سے بلدیاتی نمائندوں کے لیے وسائل پیدا ہوتے ہیں، ایک جمہوری جماعت یا نظام بلدیاتی حکومت کے لیے اس طرح کے ماڈل کی کس طرح اجازت دے سکتی ہے۔
آئین کیا کہتا ہے؟
آئین کی دفعہ 116 کی شق 3 اور 4 کہتی ہے کہ ’جب گورنر نے کوئی بل صوبائی اسمبلی کو واپس بھیج دیا ہو تو اس پر صوبائی اسمبلی دوبارہ غور کرے گی اور اگر صوبائی اسمبلی حاضر اور ووٹ دینے والے ارکان کی اکثریتی ووٹ سے ترمیم کے ساتھ یا بلاترمیم بل دوبارہ منظور کرے تو اسے دوبارہ گورنر کو پیش کیا جائے گا اور پھر گورنر 10 روز میں اس کی منظوری دے گا جس میں ناکامی کی صورت میں سمجھا جائے گا کہ منظوری ہوچکی ہے‘۔
اسی طرح ’گورنر نے کسی بل کی منظوری دی ہو یا اس کی دی گئی منظوری متصور ہو تو وہ قانون بن جائے گا اور صوبائی اسمبلی کا ایکٹ کہلائے گا‘۔