ڈیرہ غازی خان میں منگل کی رات دیر گئے پہاڑوں سے آنے والے سیلاب کے دوران حفاظتی بند ٹوٹنے سے 6 دیہاتی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔کے مطابق دوسری جانب بدھ کے روز سندھ اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں بارش سے متاثرہ خاندان حکومتی مدد کے منتظر ہیں یا اپنی مدد آپ کے تحت خود ہی محفوظ مقامات پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جیسے ہی غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہوئیں، طوفان سے متاثرہ شاداں لوند پروٹیکشن ڈائک سے مزید 6 افراد کے لاپتا ہونے کی اطلاع ملی۔
ادھر بلوچستان کے علاقے لسبیلہ میں بھی بڑی تعداد میں لوگ محصور ہو گئے کیونکہ امدادی کارکنوں کو ان تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم تحصیل لاکھڑا سے 150 افراد کو بچا لیا گیا۔
پروٹیکشن ڈائک کے قریب رہنے والے دیہاتیوں کے مطابق وہ اس حوالے سے بے خبر تھے کیونکہ انتظامیہ نے سوری لوند پہاڑی سے آنے والے سیلاب کے بارے میں کوئی انتباہ جاری نہیں کیا تھا، سیلابی پانی نے محکمہ خوراک کے گندم کے ذخیرے کو بھی متاثر کیا۔
ریسکیو ذرائع کے مطابق سوری پہاڑی طوفان پل قمبر، بستی امدانی، چوکی والا، بستی لاشاری اور چٹانی زندہ پیر موڑ کے علاقوں سے ٹکرایا۔
انتظامیہ نے 14 کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے ریسکیو آپریشن شروع کیا، 40 سال کی آمنہ، 50سالہ خلیل، پروین بی بی، رشیدہ، نسیم اور منیر کے تین سالہ بیٹے کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔
تحصیل کوٹ چھٹہ میں وڈور پہاڑی طوفان نے کمہار والا اور کھوسہ کے علاقوں کو تباہ کردیا جس کے بعد ریسکیو آپریشن میں دو کشتیوں نے حصہ لیا اور ریسکیو ٹیموں نے 46 دیہاتیوں کو منتقل کیا۔
بلوچستان
دوسری جانب ضلع لسبیلہ میں موسلا دھار بارشوں نے تباہی مچادی جس کے باعث مختلف علاقوں میں لوگوں کی بڑی تعداد محصور ہوگئے اور سیلاب کے باعث ریسکیو ٹیموں کو ان تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے جس سے وسیع علاقہ زیر آب آ گیا ہے۔
کوئٹہ اور کراچی کے درمیان سڑک کا رابطہ 72 گھنٹے گزرنے کے باوجود بحال نہ ہوسکا کیونکہ تین پل اور نیشنل ہائی وے کا بڑا حصہ بہہ گیا ہے۔
تاہم صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی امدادی ٹیمیں ایدھی رضاکاروں کے ساتھ کشتیوں کے ذریعے تحصیل لاکھڑا کے علاقے اوراکی پہنچیں اور مختلف دیہاتوں میں پھنسے 150 کے قریب افراد کو بچا لیا، قلات کے کمشنر داؤد خلجی نے میڈیا کو بتایا کہ تقریباً 30 خاندانوں کو ایدھی کی کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔
دیگر حکام نے بتایا کہ اوراکی کے علاقے میں 200 کے قریب لوگ اب بھی پھنسے ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں پاک بحریہ کے دو ہیلی کاپٹروں نے کچھ علاقوں میں امدادی سامان بشمول خوراک اور پینے کا پانی گرایا۔
جھل مگسی ضلع سے پہنچنے والی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ فتح پور کے علاقے میں دریائے مولا کے پانی میں 10 کے قریب دیہات ڈوبنے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہو گئے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے امدادی کارروائیوں کے لیے اپنا سرکاری ہیلی کاپٹر پی ڈی ایم اے کے حوالے کردیا، جھل مگسی اور گنداواہ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہیلی کاپٹر نے 1340 کلو راشن اور دیگر امدادی سامان گرایا۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بدھ کی شام ہونے والی موسلادھار بارش سے کئی علاقے زیرآب آگئے۔
غیبی امداد کے منتظر
سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کے تین ساحلی تعلقوں میں واقع تقریباً 200 دیہاتوں کی ایک پوری آبادی قریبی پشتوں پر پناہ لینے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے اور بچاؤ کے لیے کسی غیبی امداد کا شدت سے منتظر ہے۔
بارش کے پانی کی وجہ سے اوچاٹو باغان نالے پر نیا بنایا گیا پل بہہ گیا ہے۔سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں مختلف شہروں میں نصب سکھر الیکٹرک پاور کمپنی کے 200 سے زائد فیڈرز 24 گھنٹے سے زائد عرصے سے کام کرنے سے قاصر ہیں۔