وفاقی کابینہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے اور سپریم کورٹ کے بینچوں کی تشکیل کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے بل کی منظوری دے دی جس کے بعد اسے قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔
سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت عظمیٰ کی جانب سے اصل دائرہ اختیار کے استعمال کا موضوع مختلف فورمز پر زیر بحث تھا۔
ایک روز قبل، سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیارات پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ ایک آدمی کے تنہا فیصلے پر انحصار نہیں کر سکتی۔
پیر کے روز سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کے التوا کے حوالے سے پی ٹی آئی کی جانب سے چیلنج کی گئی درخواست کی سماعت کے چند گھنٹوں دونوں ججوں نے یہ ریمارکس اپنئے تفصیلی اختلافی نوٹ میں دیے تھے۔
دونوں ججوں نے کہا تھا کہ صوبائی انتخابات کے حوالے سے سوموٹو کی کارروائی 3-4 کی اکثریت سے مسترد کر دی گئی اور کہا کہ چیف جسٹس کو متعلقہ ججوں کی رضامندی کے بغیر بینچوں کی تشکیل نو کا اختیار نہیں ہے۔
اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے آج قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران اختلافی نوٹ کو امید کی کرن قرار دیتے ہوئے اس تناظر میں متعلقہ قانون سازی کا مطالبہ کیا۔
کابینہ کی طرف سے منظور کردہ بل میں بینچوں کی تشکیل کے بارے میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے ہر وجہ، معاملے یا اپیل کو ایک بینچ سنے گا جسے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا جائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔
عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے بڑے بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔
پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری نے ان ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایک ’منتخب پارلیمنٹ‘ کو تفصیلی بحث کے بعد ایسا کرنے کا حق ہے۔
انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی شدید مذمت اور مجوزہ ترامیم کو مسترد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حق صرف منتخب پارلیمان کو ہے کہ وہ ایک تفصیلی بحث کے بعد کوئ بھی ترمیم کرے، عدلیہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کی سخت مذمت کرتے ہیں۔
عدالتی اصلاحات کا بل کابینہ سے منظوری کے بعد آج وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔
وزیر قانون نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بار بار معمولی باتوں پر سوموٹو نوٹسز کیے گئے ، یہ سوموٹو ادارے کی تکریم کا باعث نہیں بنے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی عدالت عظمی کا فیصلہ آیا جس میں ججز صاحبان نے لکھا کہ یہ ضروری ہے کہ کیسز کی تقسیم میں یکسانیت رکھنے کے لیے ایسا میکانزم بنایا جائے جس میں شفافیت ہو۔