چیف جسٹس کا چیف سیکریٹری پنجاب پر اظہاربرہمی، ‘دیکھیں گے جیل بھیجنے کے بارے میں کیا کرنا ہے’

سپریم کورٹ میں پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی عدم بحالی سے متعلق توہین عدالت کیس میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے چیف سیکریٹری پر اظہاربرہمی کرتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی عدم بحالی پرحکومت پنجاب کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس پاکستان نے چیف سیکریٹری پنجاب پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا آپ کو جیل بھیج دیں گے، ساری عمر جیل میں رہوگے، بتائیں عدالتی حکم پر 7 ماہ بعد کیا ہوا، آپ ایسے آئے ہیں جیسے لنچ یا ڈنر کرنے آئے ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آپ کو یا آپ کی جماعت کو پسند نہ ہو پھر بھی عمل کرنا ہے، آپ تو سیکریٹری یونین کونسل نہیں لگ سکتے آپ کو چیف سیکرٹری کس نے لگایا۔

چیف سیکریٹری پنجاب پر اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ہفتے بعد رپورٹ دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ چیف سیکرٹری کا کیا کرنا ہے، دیکھیں گے کہ چیف سیکریٹری کی بقیہ سروس اور جیل بھیجنے کے بارے میں کیا کرنا ہے۔

عدالت نے چیف سیکریٹری پنجاب سے عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے سے متعلق ایک ہفتے میں تفصیلی رپورٹ طلب کیا اورمقدمے کی سماعت بھی ایک ہفتے تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو صوبے کے تمام بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے کے لیے 20 اکتوبر تک مہلت ‏دے دی تھی۔

درخواست گزار کے وکیل نوازش پیرزادہ نے کہا تھا کہ ‎عدالت ایڈووکیٹ جنرل سے ایسا کرنے کی تحریری یقین دہانی مانگے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ عدالت کو کوئی تحریری یقین دہانی درکار نہیں ہے، ہمیں ہمارا کام کرنا آتا ہے۔

اس سے قبل عدالت عظمیٰ نے 25 مارچ کو ایک مختصر حکم نامے کے ذریعے صوبے میں بلدیاتی اداروں کی عدم بحالی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان کی بحالی کا حکم دیا تھا۔ ‎

چیف جسٹس نے لاہور کے میئر سے کہا تھا کہ ملک بھر کے بلدیاتی ادارے سپریم کورٹ کے حکم سے بحال کیے گئے تھے، جب ذمہ داریوں کا معلوم ہی نہیں تو آپ سب گھر بیٹھ جائیں، آپ ان کے نام بتائیں جنہوں نے دفاتر کو تالے لگائے، بلدیاتی نمائندے چاہتے ہیں ان کو پیسے اور عملہ دیں تو وہ کام کریں، بلدیاتی نمائندوں میں کام کرنے کا جذبہ ہی نہیں ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب نور الامین پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کس قسم کا سیکریٹری لوکل گورنمنٹ رکھا ہوا ہے، جواب کہاں ہے، جس پر جس پر سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب نور الامین نے عدالت سے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت دینے کی استدعا کی تھی۔

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس سے استفسار کیا تھا کہ ‎عدالتی فیصلے پر تاحال عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ جس پر انہوں نے بتایا تھا کہ بلدیاتی اداروں کی بحالی سے متعلق بہت کام ہوچکا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ایسے کام نہیں چلے گا، ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔

بعدازاں ‎سپریم کورٹ نے چیف سیکریٹری پنجاب کامران افضل کو نوٹس جاری کر دیا تھا جبکہ سابق چیف سیکریٹری پنجاب جاوید رفیق کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا تھا اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب کو توہین عدالت کی درخواست پر وکیل کرنے اور حکومت پنجاب کو بلدیاتی ادارے فعال کرنے کی مہلت دی تھی۔

خیال رہے کہ حکومت پنجاب نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ (پی ایل جی اے) 2019 کے سیکشن 3 کے تحت بلدیاتی اداروں کو تحلیل کردیا تھا جبکہ الیکشن، پی ایل جی اے 2013 کے تحت 2015 اور 2016 میں مرحلہ وار ہوئے تھے، منتخب بلدیاتی اداروں کی مدت پانچ سال ہے۔

تاہم صوبائی حکومت نے ’پانچ سال‘ کی جگہ ’21 ماہ‘ کے الفاظ شامل کرکے پی ایل جی اے کے سیکشن 3 (2) میں ترمیم کے بعد گزشتہ برس 2 جولائی کو بلدیاتی اداروں کی مدت اچانک ختم کردی تھی۔

درخواست گزاروں نے پی ایل جی اے 2019 کی دفعہ 3 کے تحت اس تحلیل کو چیلنج کیا تھا کہ بلدیاتی اداروں کے منتخب ممبران اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے اہل ہیں، جو اس سال 31 دسمبر کو ختم ہونی ہے۔

جس پر عدالت عظمیٰ نے 25 مارچ کو ایک مختصر حکم نامے کے ذریعے صوبے میں بلدیاتی اداروں کی عدم بحالی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان کی بحالی کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا تھا کہ بلدیاتی ادارے اپنی مدت پوری کیے بغیر تحلیل نہیں کیے جاسکتے اور اداروں کو تحلیل کرنا آئین کی شقوں کے خلاف ورزی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں