پی ڈی ایم کا وفاقی حکومت سے آرٹیکل 63-اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس بھیجنے کا مطالبہ

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے سیاسی اور آئینی عدم استحکام پیدا ہوا ہے اس لیے اس شق کی فل کورٹ میں تشریح کے لیے وفاقی حکومت کو صدارتی ریفرنس بھیجنے کا کہا گیا ہے۔

لاہور میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ملک کی صورت حال پر بڑی سنجیدگی کے ساتھ غورکیا گیا تاہم اجلاس جاری ہے اور چند روز مزید جاری رہے گا، جس میں حکمران اتحاد میں شامل دیگر تمام جماعتیں بھی شریک ہوں گی۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی صورت حال پر ان کی رائے لے کر ایک مشترکہ حکمت عملی اور مشترکہ رائے قائم کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آج کے اجلاس میں واضح کیا گیا ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں گے اور حکومت اپنا وقت پورا کرے گی اور عمران خان کے گزشتہ ساڑھے تین سال کا گند ایک سال میں صاف کرنا مشکل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن وقت پر ہوں گے اور اگلے 5 سال میں ہم سب مل کر اس گند کو اکٹھے صاف کریں گے، ان کے جھوٹے بیانیے کو شکست دیں گے، وہ قوم اور نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم اس ملک کو بچائیں گے، اس کے مستقبل کو بچائیں گے، اقتصاد چیلنج بنا ہوا ہے اور معیشت کو کس طرح بحال کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کے اجلاس میں قرار دادیں ہوئی ہیں، متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد میں وفاقی حکومت سے کہا گیا ہے فل کورٹ کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح حاصل کرنے کے لیے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ بھجوایا جائے۔

‘آئین میں ہرادارے کا دائرہ کار متعین ہے’

اجلاس میں منظور ہونے والی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دستور پاکستان 1973 میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اداروں کو ریاستی اختیارات تفویض کردیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین میں واضح طور پر ادارے کی ذمہ داری اور دائرہ کار تعین کیا گیا ہے اور کوئی ادارہ دستور کے تحت کسی دوسرے کام میں مداخلت کرسکتا ہے اور نہ ہی دوسرے ادارے کی ذمہ داری خود سرانجام دے سکتا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اجلاس کی متفقہ رائے ہے کہ آئین کے 63 اے کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے سے شدید ابہام، افراتفری اور سیاسی بحران پیدا ہوا ہے اور یہی سیاسی بحران پاکستان میں معاشی بحران کا سبب بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصلہ دینے والی عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ کے دو معزز جج صاحبان کی تین ججوں کی اکثریتی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے فیصلے کو آئین میں اضافہ قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی نمائندہ سیاسی اور جمہوری جماعتوں نے اس پر اپنی بے چینی اور تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں تشریح کے دستوری حق سے تجاوز کیا گیا ہے، جس سے نہ صرف سیاسی اور آئینی بحران پیدا ہوا بلکہ اس کے نتیجے میں ملک میں شدید سیاسی عدم استحکام نے بھی جنم لیا ہے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت پاکستان بھر کی نمائندہ وکلا تنظیموں، نامور قانون دانوں، میڈیا اور سول سوسائٹی نے بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا ہے اور اس کو دستور کی کھینچی ہوئی لکیر سے انحراف اور تجاوز سے تعبیرکیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی اور پھر پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے حالیہ انتخاب کے دوران آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے تناظر میں جو الگ الگ معیارات اور تشریحات سامنے آئی ہیں، اس سے سیاسی جماعتوں، وکلا، میڈیا اور سول سوسائٹی کے خدشات کو درست ثابت کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ملک کو اس آئینی اور سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ صدارتی ریفرنس بھجوایا جائے تاکہ فل کورٹ تشکیل دے کر اس معاملے پر تفصیل حاصل کی جاسکے۔

‘فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ بلا تاخیر جاری کیا جائے’

پی ڈی ایم کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ 8 سال سے زیر التوا فارن فنڈنگ کیس کا فی الفور فیصلہ سنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین، قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ مزید کسی تاخیر کے بغیر جاری کرے۔

فارن فنڈنگ کیس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس تاخیر میں تشویش کا پہلو یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے فراہم کردہ ناقابل تردید شواہد، سیکیورٹی کمیٹی کی رپورٹ، غیرجانب دار آڈیٹر کے فرانزک تجزیے سے تمام جرائم ثابت ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے ہر سال الیکشن کمیشن سے اپنے درجنوں اکاؤنٹ چھپائے، جھوٹے اور جعلی بیان حلفی، سرٹیفیکیٹ اور ڈیکلیریشن جمع کرائے۔

پی ٹی آئی پر فارن فنڈنگ کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 88 غیرملکی شہریوں نے ممنوعہ غیرملکی فنڈنگ کی، جس میں اسرائیل اور بھارت کے شہری بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 350 غیرملکی کمپنیوں سے ممنوعہ فنڈنگ کی منی لانڈرنگ ہوئی، پارٹی کے مرکزی دفتر کے ملازمین کے نجی اکاؤنٹس کے ذریعے ملک کے اندر اور باہر سے بھاری رقوم جمع کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ شواہد متقاضی ہیں کہ قانون اپنا راستہ لے لیکن الیکشن کمیشن نے پراسرار خاموشی کی چادر اوڑھی ہوئی ہے حالانکہ ثابت شدہ غیرملکی فنڈنگ جوہری پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے بھی ایک نہایت سنگین پہلو ہے، جس پر آنکھیں بند پر قومی مفادات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس اہم مقدمے کا فیصلہ آنے میں 8 سال کی طویل تاخیر نے ملک میں لاقانونیت کو فروغ دیا ہے اور اداروں کے کمزوری کا تاثر مضبوط ہورہا ہے۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ یہ صورت حال کسی جمہوری معاشرے کے لیے مفید نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کی تنظیم اور مالیاتی امور سے متعلق اس اہم مقدمے کا فیصلہ صادر کرکے آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں تشویش کا اظہار کیا گیا کہ فارن اور ممنوعہ فنڈنگ کی مرتکب جماعت اور اس کے سربراہ نےملک کے آئین اور قانون کو مذاق بنا رکھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ ریاستی اداروں کی ڈیل کے نتیجے میں خود کو قانون سے بالاتر سمجھا ہے، اس کیس کا فیصلہ آنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ تاکہ ثابت ہوسکے کہ پاکستان آئین اور قانون کی حکمرانی ہے اور طاقت ور مجرم قانون کے تابع ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس کے علاوہ پاکستان بھر میں، بلوچستان، خیبرپختونخوا، کراچی اور پنجاب کے علاقوں میں سیلاب سے درجنوں پاکستانی شہید اور ہزاروں بے گھر ہوگئے ہیں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ ان علاقوں کو آفت زدہ قرار دیا جائے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت کو ہٹانے سے ایک سال قبل کہا تھا کہ ماضی بحران بڑا مسئلہ نہیں بلکہ اس بحران پر کیسے قابو پایاجائے یہ بڑا مسئلہ ہے اور اب مشکلات وہی آرہی ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ بیوروکریسی کے اندر اب بھی وہ عناصر موجود ہیں جو حکومتی فیصلوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ پرانے نظام کا تسلسل ہیں اور اس کا علاج ہونا چاہیے۔

لاڈلے کے لیے فل کورٹ مسترد کردیا گیا، مریم نواز

نائب صدر مسلم لیگ (ن) مریم نواز نے کہا کہ فل کورٹ کا مطالبہ اس لیے مسترد ہوا کیونکہ اس قسم کا یک طرفہ اور ناانصافی پر مبنی فیصلہ آنا تھا اور اگر فل کورٹ بن جاتا تو خوف تھا۔

انہوں نے کہا کہ فل کورٹ اس لیے نہیں بنا کیونکہ ناانصافی کرنی تھی اور لاڈلے کو نوازنا تھا، فیصلے میں انصاف کا قتل ہوا ہے، ظاہر فل کورٹ کئی معزز جج صاحبان شامل ہیں، جو دیانت دار ہیں اور ان کی شہرت داغ دار نہیں ہے اور ان کی موجودگی میں اس طرح کا فیصلہ ناممکن ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر نیت میں کوئی خرابی نہ ہوتی اور ناانصافی نہ کرنی ہوتی تو آپ کو کوئی عار نہیں ہوتا اور کہتے بیٹھیں اور چیلنج کریں۔

مریم نواز نے کہا کہ جب چند ہفتے پہلے ایک فیصلہ دیا اور اس فیصلے میں اپنے پچھلے فیصلے کو خود اڑا کر رکھ دیا تو فل کورٹ یہ نہ کرتا تو ظاہر فل کورٹ نہیں بنایا اور اسی لیے انکار ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے پورا یقین تھا جبکہ ہمارے کئی ساتھیوں نے کہا کہ فل کورٹ بنے گا لیکن میں نے کہا کہ نہیں بنے گا کیونکہ فل کورٹ بنتا تو انصاف ہوتا اور اسٹمپ لگتا، یہ فیصلہ کرنا تھا اس لیے فل کورٹ نہیں بنا۔

‘غلطی کی تصحیح بھی لاڈلے کے حق میں’

سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فیصلے میں کہا گیا کہ اگر انجانے میں کسی جج سے غلطی ہوئی ہے تو اس کے بعد اس کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ اس کی تصحیح کریں اور قانون کا درست نکتہ لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ غلطی اگر کی تو لاڈلے کے حق میں اور اس کی تصحیح کی تو بھی لاڈلے کے حق میں تو یہ کیسی تصحیح ہے اور وہ کیسی غلطی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے 25 اراکین بھی عمران خان کی جھولی میں اور چوہدری شجاعت کے 10 اراکین بھی عمران خان کی جھولی میں، یہ غلطی اور س کی تصحیح ہے۔

نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ یہ عدالتی قتل ہوا ہے اور اس دفعہ انصاف اور عدل کا قتل ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غلطی اگر درست کرنی تھی تو اقامہ کی غلطی درست کرتے جس کا پوری دنیا نے مذاق اڑایا اور رہتی دنیا تک ایک ایسا مذاق بن گیا ہے، جس کی کوئی توضیح نہیں دی جاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ثاقب نثار نے عمران خان کو صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ دیا تھا اس غلطی کی تصحیح کرتے جنہوں نے 4 سال صداقت اور امانت کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ پاکستان کی تباہی کی۔

انہوں نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کے ہوشربا انکشافات پر ان کی بات سنتے، وہ ریٹائر ہوا لیکن ان کا کیس نہیں سنا گیا اور ان کا کیس آج بھی جوڈیشل کمیشن میں موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ غلطی کی تصحیح کرنی تھی تو جج ارشد ملک کے بیان کی کرتے کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ مجھے بلیک میل کرکے کروایا گیا، دوربینیں لے کر دنیا بھر میں نواز شریف کے خلاف ثبوت ڈھونڈتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ جب نواز شریف جماعت کا سربراہ ہے اور عدالت میں اس کا کوئی مقدمہ آتا ہے عدالت تاویلیں دیتی ہے کہ پارٹی کا سربراہی سب کچھ ہوتا لیکن لاڈلے کی باری آتی ہے تو کہتے ہیں پارٹی سربراہ کچھ نہیں ہوتا بلکہ پارلیمانی پارٹی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی باتیں حیران کن ہیں اور جب فیصلہ آیا تو سوچ رہی تھی چیف جسٹس صاحب آپ یہ کیا کر بیٹھے ہیں، ہمیں تو ایسے فیصلوں کی عادت ہوگئی ہے، ہمارا ووٹ بیس بھی چارج ہوتا ہے اور ووٹر کھڑا ہوتا، جس سے ہمیں فائدہ ہوتا لیکن نقصان کس کا ہوا کیونکہ جب اس طرح کے فیصلے آتے ہیں ادارے کی توہین ادارے کے اندر سے ہوتی ہے۔

‘عدالت کا کام آئین کی تشریح ہے آئین سازی نہیں’

انہوں نے کہا کہ عدالت کا کام آئین کی تشریح کرنا ہے، آئین سازی نہیں ہے، اگر آئین سازی کرنی ہے، جو کہ آپ نے کی تو پارلیمنٹ کو تالا لگادیں، اگر آپ نے وزرائے اعظم اور وزیراعلیٰ مقرر کرنے ہیں تو اسمبلیوں اور پنجاب اسمبلی کو تالا لگادیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ کچھ بھی کریں، پرویز الہٰی ہمیشہ کے لیے عدالتی وزیراعلیٰ کہلائیں گے، وہ عدالتی وزیراعلیٰ ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو اس کے 10 ووٹ ہیں اور انہیں وزارت اعلیٰ تین رکنی بینچ نے حمزہ سے چھین کر انہیں دی ہے اور یہ عنایت کی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پھر آپ آئین کی تشریح چہرے، جماعتیں اور پارٹی سربراہ دیکھ کر بدلتے ہیں، نواز شریف ہو تو تشریح کچھ اور ہوتی ہے، اس کے چند ہفتوں بعد عمران خان ہو تو آئین کی تشریح بھی بدل جاتی ہے اور حلیہ بھی بدل جاتا ہے، یہ آپ کا انصاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کو پارلیمان نے بنایا اور اس کو تین رکنی بینچ جو خود متنازع ہے، جس کے اوپر انگلیاں اٹھ چکی ہیں، جو نواز شریف کے خلاف ہر فیصلے میں شامل ہوتا ہے اور جان بوجھ کر اسی بینچ کو لایا جاتا ہے جو خود متنازع ہوچکا ہے۔

‘اس طرح کے فیصلوں پر سرتسلیم خم نہیں کریں گے’

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ سمجھیں کہ اس طرح کے فیصلے ہم سرجھکا کر تسلیم کریں گے تو ایسا نہی ہوگا ہم اس آئین کے رکھوالے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر اگر مسلم لیگ (ن) کا ہوگا تو اس کو عدالت میں بلا کر کٹہرے میں بھی کھڑا کیا جائے گا اور اس کی رولنگ بھی غلط قرار دے دی جائے لیکن اگر عمران خان کا ڈپٹی اسپیکر ہوتو عدالت اس کو نہیں بلائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ قاسم سوری کو جعل سازی کرنے پر ڈھائی سال سے سپریم کورٹ سے اسٹے لیا ہوا ہے، یہ تفریق اور امیتاز اور عدالتی ناانصافی ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ پاکستان میں ایک ہی چیز محفوظ ہے اور ہر چیز سے محفوظ ہے وہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہے، 8سال سے محفوظ ہے، جہاں اقامہ نکلنا تھا وہاں بعض اوقات روزانہ جج بشیر کی عدالت میں جاتے رہے۔

فارن فنڈنگ کیس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور بھارت کے شہریوں اور دنیا کی 300 کمپنیوں سے فنڈنگ ہوئی، اگر نواز شریف یا میں ہوتی تو کیا ہوتا تو ایسا سلوک ہوتا کہ سوچ کر بھی انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے۔

مریم نواز نے کہا کہ اگر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہیں آتا ہے تو سب سے مشاورت سے الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا دیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں