پنجاب اسمبلی کے علیحدہ اجلاس نے بجٹ کی قانونی حیثیت کو مشکوک بنا دیا

گورنر پنجاب کا صوبائی اسمبلی کو سیکریٹری قانون کے ماتحت کرنے کا آرڈیننس قانونی جانچ پڑتال کی زد میں آگیا جسے ’غیر قانونی‘ قرار دیا گیا ہے کیونکہ آرڈیننس کے نفاذ کے وقت ایوان کا اجلاس جاری تھا۔

رپورٹ کے مطابق قانون دانوں اور پارلیمانی طریقہ کار کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایوان اقبال میں بجٹ پیش کرنے کے لیے سیکریٹری قانون کی جانب سے اجلاس کو ملتوی کرنے اور طلب کرنے کے جاری نوٹیفکیشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔

ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سیکریٹری قانون نے گورنر کا آرڈیننس نوٹیفائیڈ ہونے سے پہلے ہی 41 واں اجلاس طلب کرنے کے احکامات جاری کیے، اس لیے اس میں کوئی قانونی وزن نہیں ہے۔

فی الحال پنجاب اسمبلی کے دو متوازی 41 ویں اجلاس جاری ہیں، ایک اپوزیشن کی درخواست پر اسمبلی احاطے میں اسپیکر پرویز الٰہی کی زیر صدارت اور دوسرا گورنر کا طلب کردہ اجلاس ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی زیر صدارت ایوان اقبال میں، جس میں سال 23-2022 کا بجٹ پیش کیا گیا تھا اور ہفتہ (آج) اس پر بحث ہوگی۔

میڈیا نے سیکرٹری قانون احمد رضا سرور کو واٹس ایپ پر ایک سوالنامہ بھیجا کہ جب 14 اور 15 جون کو اسمبلی کا اجلاس جاری ہو تو آرڈیننس کیسے جاری کیا جا سکتا ہے، پنجاب اسمبلی رولز کے تحت اختیار اسمبلی سیکریٹری کے پاس ہوتے ہوئے سیکریٹری کیسے اجلاس کو ملتوی اور طلب اور وہ اسمبلی کے قوانین کو کیسے اوور رائیڈ کر سکتا ہے۔

تاہم احمد رضا سرور نے خاموش رہنے کا انتخاب کیا اور متعدد مرتبہ کال کرنے پر بھی جواب نہیں دیا۔

دریں اثنا اسمبلی اسپیکر کی جانب سے جاری کردہ ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ ایوان کے نگران نے اپوزیشن کی درخواست پر اگلا اسمبلی اجلاس (ممکنہ طور پر 41 واں) 15 جون کو طلب کیا ہے۔

قانونی ماہرین اور ارکان پارلیمنٹ نے اعتراف کیا کہ نیا اجلاس بلانا سیکریٹری قانون کی جانب سے نوٹیفائی کردہ گورنر کے حکم امتناعی کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔

اسپیکر نے نیوز ریلیز میں یہ بھی کہا کہ گورنر بلیغ الرحمٰن کی طرف سے جاری کیا گیا آرڈیننس، پنجاب لاز (دشواریوں کو ختم کرنے اور ہٹانے کے) آرڈیننس 2022 میں اسپیکر کے اختیارات کو کم کرنے کے ساتھ قانون اور پارلیمانی امور کے محکمے کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے یا ملتوی کرنے سے متعلق نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، جسے آئین کے آرٹیکل 128(2)((کے تحت متفقہ قرارداد کے ذریعے کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔

اسپیکر پرویز الٰہی نے سیکریٹری پنجاب اسمبلی کے پاس موجود اسمبلی اجلاس کو ملتوی کرنے اور/یا طلب کرنے کے اختیارات برقرار رکھے۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلی سیکریٹری نے 14 جون کو اگلے روز اجلاس بلانے کے احکامات جاری کیے تھے اور اجلاس شیڈول کے مطابق اسمبلی کی عمارت میں منعقد ہوا۔

اسپیکر نے کہا کہ ’اسمبلی چیمبرز میں بلائے گئے اجلاس کے علاوہ کہیں اور بلائے گئے اجلاس کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں اور اسپیکر کے بلائے گئے اجلاس کو صرف وہ ہی ملتوی کر سکتے ہیں۔

رابطہ کرنے پر اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی محسن لغاری نے دعویٰ کیا کہ گورنر کے پاس آئین کی دفعہ 67 کے ساتھ دفعہ 127 کے تحت اسپیکر کو دیے گئے اختیارات کو ختم کرنے کے لیے آرڈیننس جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

محسن لغاری نے یہ بھی کہا کہ آرٹیکل 128 کے مطابق جب اسمبلی کا اجلاس جاری ہو تو آرڈیننس جاری نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ 40 ویں اجلاس کے التوا اور 41 ویں اجلاس کی طلبی کے سیکرٹیری قانون کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی زیر صدارت ایوان اقبال میں منعقدہ بجٹ اجلاس میں سنگین قانونی کوتاہیاں ہوئیں۔

محسن لغاری نے کہا کہ اسپیکر پرویز الٰہی نے3 مرتبہ پنجاب کے عارضی وزیر خزانہ اویس لغاری کو مالی سال 23-2022 کا بجٹ پیش کرنے کے لیے کہا لیکن قانون ساز یہ کہتے ہوئے واک آؤٹ کر گئے کہ گورنر نے اجلاس کو ملتوی کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’گورنر کا التوا کا حکم 14 جون نہ ہی 15 جون کو گزیٹ نوٹیفکیشن کے لیے بھیجنے کے لیے اسمبلی سیکریٹری کو موصول نہیں ہوا‘۔

محسن لغاری نے زور دے کر کہا کہ اسمبلی کی مشکوک طلبی پر پیش کیے جانے والا بجٹ کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا اور اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں