توانائی کے شدید بحران اور ایندھن کی غیرمعمولی مہنگی درآمدات کے دوران پاکستان قطر سے مؤخر ادائیگیوں پر مزید گیس درآمد کرنے کا خواہاں ہے، جو اپنے انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کے منصوبوں خاص طور پر درآمدی ٹرمینلز میں رکاوٹوں کی وجہ سے پریشان ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں حکام ہر ماہ چار سے پانچ کارگوز (تقریباً 400-500 ملین مکعب فٹ گیس) کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی فراہمی بڑھانے کے لیے مختلف سطحوں پر قطر کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔
تقریباً ہر رابطے میں دوسرا فریق کراچی کے قریب ایک مرچنٹ ایل این جی ٹرمینل قائم کرنے کے اپنے منصوبے میں رکاوٹیں دور کرنے کے حوالے سے اپ ڈیٹ سننا چاہتا ہے۔
حکومت گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اسپاٹ مارکیٹ سے جولائی کے لیے ایک بھی کارگو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ جو بھی مقدار اسپاٹ پر یا کہیں بھی دستیاب ہے اسے امریکا یورپ کی جانب موڑ رہا ہے جو روس-یوکرین جنگ کے باعث توانائی کی قلت کا شکار ہے اور کسی بھی قیمت پر ہر قطرہ لینے کے لیے تیار ہے۔
قطر کی جانب سے جولائی کی ڈیلیوری کے لیے دوبارہ 40 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) کی بولی اتنی مہنگی تھی کہ قطر کے ساتھ طویل مدتی معاہدے کی 11 سے 14 ڈالر قیمت کے مقابلے میں اسے قبول نہیں کیا جا سکتا تھا۔
آئندہ چند مہینوں کے لیے اس بات کا امکان بہت کم نظر آتا ہے کہ حکومت اپنی صلاحیت کا استعمال کر سکے کیونکہ ایل این جی کی قیمت قابل عمل نہیں ہے۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے چند ہفتے قبل ایل این جی کی اضافی مقدار کے لیے قطر کا دورہ کیا۔
جب ان سے اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے قطر کی تفصیلات پر تبصرہ نہ کیا لیکن کہا کہ حکومت یہ دیکھنے کے لیے تمام راستے استعمال کر رہی ہے کہ کس طرح مقامی صنعت اور لوگوں کی ضروریات کو مسابقتی قیمتوں پر پورا کرنے کے لیے اضافی ایل این جی حاصل کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قیمتوں کے مختلف ماڈلز ان کے ذہن میں ہیں لیکن اصل چیلنج توانائی کی اضافی مقدار کی دستیابی تھی۔
مصدق ملک نے کہا کہ حکومت مسابقت اور اجارہ داری کے خاتمے کے لیے نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے گی، ہم ہر میدان میں صرف چند چہرے نہیں دیکھنا چاہیں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد میں قطری سفیر نے حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی ملاقات کی اور ڈاکٹر مصدق ملک کے ساتھ فالو اپ سیشن کیا جس میں بتایا گیا کہ قطر انرجی کو اپنے ایل این جی ٹرمینل کے حوالے سے غلط تاثرات مل رہے ہیں۔
تاہم یہ نہ صرف قطر کی انرگیس ہے بلکہ مٹسوبشی کی تعبیر انرجی بھی ہے جو پائپ لائن کی صلاحیت پر دستخط میں کامیابی کے بغیر ایل این جی ٹرمینلز، مارکیٹنگ اور سیلز کے لیے لائسنس کے ساتھ بھاگ دوڑ کررہی ہے۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ نہ صرف گیس کمپنیاں بلکہ ریگولیٹری باڈیز اور متعلقہ وزارتیں پائپ لائن کی گنجائش کے لیے معاہدے پر دستخط کرنے یا آنے والے دو مرچنٹ ٹرمینلز تک تیسرے فریق کو رسائی فراہم کرنے میں تاخیر کر رہی ہیں۔
انہیں یہ دھمکیاں بھی موصول ہوئی ہیں کہ ان کے جلد ختم ہونے والے لائسنسوں کی تجدید نہیں کی جائے گی۔
اس دوران، پاکستان کے لیے نئے ٹرمینلز کی تعمیر کے آپشنز کم ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ یورپی کلائنٹس اضافی ایل این جی پروسیسنگ صلاحیت کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔
ڈاکٹر مصدق ملک نے قطر کو ایک بار پھر لکھا کہ حکومت پاکستان اور اس کے عوام نے دوحہ کی مسلسل حمایت بالخصوص طویل المدتی معاہدوں کے تحت ایل این جی کی فراہمی کو سراہا۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان ’قطر سے دو موجودہ طویل مدتی خرید و فروخت کے معاہدوں کے تحت مؤخر ادائیگیوں پر ایل این جی کے کارگوز کی تعداد بڑھانے کی خواہش رکھتا ہے‘۔
انہوں نے اس بات کا یقین دلایا کہ پاکستان کی حکومت تھرڈ پارٹی رسائی میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے تندہی سے کام کررہی ہے جو قطر انرجی کی جانب سے ایل این جی درآمد کے انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے عمل کو تیز کرے گا۔
وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ اسلام آباد کو توانائی کی منڈیوں میں موجودہ ہنگامہ خیزی کی وجہ سے حدود کا احساس ہے لیکن اضافی ایل این جی کارگوز کے لیے قطر کی جانب سے ’مثبت جواب‘ کی توقع ہے جس سے دوطرفہ دوستی مزید مضبوط ہوگی۔
باخبر ذرائع نے بتایا کہ قطر پیٹرولیم کا خیال ہے کہ مرچنٹ ایل این جی ٹرمینلز کے راستے میں حکومتی ضمانتوں کے ساتھ تیار کردہ موجودہ ایل این جی ٹرمینلز کی توسیع کے لیے گنجائش پیدا کرنے کے لیے رکاوٹین حائل کی جارہی ہیں۔
ہوسکتا ہے دوحہ اس بنیاد پر مزید طویل المدتی معاہدے نہ کرے کہ پاکستان کے پاس 2 ٹرمینلز پر ہر ماہ 10 سے زائد طویل المدتی کارگوز سنبھالنے کی صلاحیت نہیں ہےْ