قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) نے کورونا وائرس کی عالمی صورتحال کے پیش نظر ملک بھر کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر آنے والے مسافروں کے ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ (آر اے ٹی) کا دائرہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے بند ہونے کے بعد پاکستان میں کورونا وائرس سے متعلق اقدامات کرنے والے ادارے نے اپنے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ کووڈ 19 کی سرگرمی کی نگرانی کے لیے آر اے ٹی کا انعقاد بے ترتیب بنیادوں پر کیا جارہا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ کورونا کی عالمی صورتحال کا جائزہ لینے اور وفاقی وزیر صحت، سی ڈی سی کی ہدایت پر این آئی ایچ نے سینٹرل ہیلتھ اسٹیبلشمنٹ (سی ایچ ای) کو مشورہ دیا ہے کہ ہوائی اڈوں پر آر اے ٹیز کے موجودہ دائرہ کار میں بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کے لیے منظم طریقے سے اضافہ کیا جائے۔
این آئی ایچ نے کہا کہ فیصلے کا بنیادی مقصد چوکس رہنا اور داخلی مقامات پر نگرانی کرنا ہے تاکہ کسی بھی متاثرہ کیس کا جلد پتا لگایا جا سکے۔
خلیجی ریاستوں اور سعودی عرب سے آنے والے مسافروں کی بے ترتیب اسکریننگ گزشتہ روز کراچی، لاہور اور اسلام آباد ایئرپورٹس پر شروع ہوئی تھی، سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے مطابق تناسب کے لحاظ سے خلیجی ممالک اور سعودی عرب سے آنے والی تمام پروازوں کے لیے تینوں ہوائی اڈوں پر آر اے ٹی کیے جائیں گی۔
سی اے اے کے ترجمان نے کہا کہ ابتدائی طور پر 150 نشستوں والے طیاروں میں آنے والے 10 سے 15 مسافروں اور 250 نشستوں کی کم از کم گنجائش والے ہوائی جہاز میں آنے والے 15 سے 20 مسافروں کا ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات وزارت صحت کے مشورے کے پیش نظر کیے گئے ہیں اور یہ مزید احکامات آنے تک جاری رہیں گے۔
پاکستان میں اومیکرون کی ذیلی قسم پہلا کیس
یہ پیشرفت رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان میں اومیکرون کی ذیلی قسم بی اے.1.12.2 کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد ہوئی ہے۔
وزارت قومی صحت کے ایک عہدیدار نے میڈیا کو بتایا تھا کہ 9 مئی کو یہ ایک ایسے شخص کو رپورٹ کیا گیا تھا جو بیرون ملک سے اسلام آباد پہنچا تھا اور ایئرپورٹ پر اس کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا، وہ تمام افراد جن سے یہ شخص رابطے میں آیا تھا انہیں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔
وزارت صحت کے اہلکار نے بتایا کہ مریض کا ہوائی اڈے پر ٹیسٹ مثبت آیا اور بعد میں جینوم سکوینسنگ کے دوران اس بات کی تصدیق ہوئی کہ وہ نئے قسم سے متاثر ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس ملک کا نام ظاہر نہیں کریں گے جس ملک سے متاثرہ شخص نے سفر کیا ہے، تاہم کورونا کی نئی قسم مسلسل مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مریض اب پہلے سے کچھ بہتر ہے اور ان سے رابطے میں رہنے والوں کو اپنے گھروں میں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔
عہدیدار نے خبردار کیا تھا کہ اگرچہ کورونا کی ذیلی قسم تیزی سے منتقل ہوتی ہے، مگر اچھی بات یہ ہے کہ تمام ویکسین اس کے خلاف مؤثر ہیں، لہٰذا ہم عوام سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد اپنے آپ کو ویکسین لگوائیں اور جن لوگوں کو ویکسین لگائی گئی ہے، وہ اپنے بوسٹر شاٹس لگائیں۔
اومیکرون کی نئی ذیلی قسم پہلے کے انتہائی متعدی ’اسٹیلتھ اومیکرون‘ سے نکلی ہے اور اس کے امریکا میں تیزی سے کیسز سامنے آئے ہیں۔
یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے رپورٹ کردہ اعداد و شمار کے مطابق اپریل کے تیسرے ہفتے میں کورونا کی ذیلی قسم بی اے.1.12.2 امریکا میں کووڈ 19 انفیکشن کے 29 فیصد کیسز کی ذمہ دار تھی اور اس کی وجہ سے نیویارک کے علاقے میں 58 فیصد انفیکشن رپورٹ ہوئے۔
تاہم کورونا کی اس ذیلی قسم کو دنیا کے 13 دیگر ممالک میں بھی رپورٹ کیا گیا ہے مگر امریکا میں اس کے کیسز بہت زیادہ ہیں، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ قسم ’اسٹیلتھ اومیکرون‘ سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔
اومیکرون کی ذیلی قسم کی نشاندہی کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے این سی او سی کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم دیا تھا جسے پی ٹی آئی حکومت نے مارچ 2020 میں کورونا وائرس وبائی مرض پر اپنے ردعمل کی نگرانی کے لیے تشکیل دیا تھا۔ رواں سال اپریل میں ملک میں کورونا وائرس کے کیسز انتہائی کم ہونے کے بعد اسے تحلیل کردیا گیا تھا۔
این آئی ایچ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں وائرس کے 84 نئے کیسز رپورٹ ہوئے اور مثبت کیسز کی شرح 0.48 فیصد رہی۔ ملک میں اس وقت تقریباً 109 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔