لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کے وزارت اعلیٰ کا انتخاب صاف اور شفاف کرانے اور اراکین کو ہراساں کرنے سے متعلق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل تک جواب طلب کرلیا۔
پی ٹی آئی کی رکن پنجاب اسمبلی زینب عمیر کی طرف سے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر جسٹس عالیہ نیلم نے سماعت کی۔
زینب عمیر کی طرف سے دائر درخواست میں حکومت پنجاب، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز، اسپیکر پنجاب اسمبلی، آئی جی پنجاب، ڈائریکٹر جنرل وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) اور چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) کو درخواست میں فریق بنایا گیا ہے۔
دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف کے اراکین کو کون ہراساں کر رہا ہے، جس پر دراخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ رانا ثنااللہ کی طرف سے ہراساں کیا جارہا ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ جن کو ہراساں کیا جارہا ہے وہ کہاں ہیں، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ رکن صوبائی اسمبلی زینب عمیر اسمبلی اجلاس میں شریک ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ رات کو صوبائی اسمبلی کے اراکین کو پولیس کی جانب سے ہراساں کرنے کے لیے مسیجز موصول ہوئے۔
عدالت نے ان میسجز کو پٹیشن کا حصہ بنانے سے متعلق سوال کرتے ہوئے حکم دیا کہ میسجز پٹیشن کے ساتھ منسلک کر دیے جائیں۔
بعدازاں عدالت نے متعلقہ فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کل تک جواب طلب کر لیا۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب صاف و شفاف طریقے سے کرانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں پی ٹی آئی رہنما زینب عمیر نے مؤقف اپنایا تھا کہ تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، سپریم کورٹ کے حکم پر 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہوگا، خدشہ ہے کہ انتخاب کے دوران یا اس سے قبل تحریک انصاف کے اراکین صوبائی اسمبلی کو ہراساں کیا جاسکتا ہے۔
زینب عمیر نے مزید خدشہ ظاہر کیا کہ تحریک انصاف کے اراکین کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکنے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
درخواست میں لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب صاف و شفاف طریقے سے کرانے کا حکم دیا جائے اور حکومت کو تحریک انصاف کے اراکین کے خلاف ہر قسم کی غیر قانونی کارروائی سے روکا جائے۔
واضح رہے کہ یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ پنجاب برقرار رکھتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق وزارت اعلیٰ کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو کرانے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی کے درمیان اتفاق رائے ہونے پر عدالت عظمیٰ نے یہ حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ 16 اپریل کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے 21ویں وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، ان کو منتخب ہونے کے لیے مطلوبہ 186 ووٹوں سے 11 ووٹ زیادہ ملے تھے۔
حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں ووٹ دینے والوں میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین بھی شامل تھے۔
پی ٹی آئی نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، صدر مملکت کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس کی تشریح کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ آرٹیکل 63۔اے کے تحت پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے اراکین اسمبلی نہ صرف ڈی سیٹ ہوں گے بلکہ ان کا ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں منحرف اراکین کے خلاف پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا جس پر فیصلہ دیتے ہوئے 20 مئی کو الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کردیا تھا، جس کے بعد ایوان میں حمزہ شہباز کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 197 سے کم ہو کر 172رہ گئی تھی۔
17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے اراکین کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی 20 میں سے کم از کم 15 نشستیں جیت کر مسلم لیگ (ن) کو شکست دے دی تھی، جس کے بعد ان کے نامزد کردہ امیدوار کی کامیابی کے امکانات نظر آرہے ہیں جن کے پاس اب 188 ارکان ہیں۔