وزیر اعلیٰ پنجاب کاانتخاب: اراکین اسمبلی پہنچ گئے، اجلاس میں تاخیر

پنجاب اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے امیدوار حمزہ شہباز اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی کے درمیان وزارت اعلیٰ کے لیے سنسنی خیز مقابلے کی توقع ہے، جس کے لیے اراکین اسمبلی پہنچ گئے تاہم اجلاس کے شروع ہونے میں تاخیر ہوگئی ہے۔

اسمبلی اجلاس میں کورم پورا کرنے کے لیے گھنٹیاں بج چکی ہیں تاہم اجلاس مقرر وقت 4 بجے شروع نہیں ہوسکا اور تاخیر کا شکار ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی لابی میں موجود ہیں لیکن وہ ایوان میں تاحال داخل نہیں ہوئے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اجلاس میں تاخیر پر تنقید کی اور ڈپٹی اسپیکر کو خبردار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ‘صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں غیر ضروری تاخیر سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی ہے، وکلا کو توہین عدالت کی کارروائی کے لیے کہہ دیا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اب سے کچھ دیر بعد ڈپٹی اسپیکر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی جارہی ہے’۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اراکین صوبائی اسمبلی صبا صادق اور عظمیٰ قادری کووڈ-19 سے متاثرہ ہونے کی وجہ سے پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپمنٹ (پی پی ای) کے ساتھ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئیں۔

دونوں اراکین کورونا کٹس میں ملبوس ہو کر پہنچیں تو ان کے ساتھ صحت کا عملہ بھی موجود ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا مشہور نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے پاس اس وقت 175 اراکین صوبائی اسمبلی ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی تعداد 180 ہے۔

آج ہونے والے انتخاب کے نتائج ملک کی آئندہ سیاست کا رخ طے کریں گے، اس کی غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے گزشتہ چند روز کے دوران سیاسی حریفوں کی جانب سے جوڑ توڑ کی کوششوں کا سلسلہ گزشتہ شب تک جاری رہا، جب وزیراعلیٰ کے انتخاب میں محض 12 گھنٹے باقی تھے۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر اپوزیشن اتحاد (پی ٹی آئی اور مسلم لیگ-ق) آج پنجاب اسمبلی میں اپنے مشترکہ امیدوار کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ منتخب کروانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کے اثرات یقینی طور پر وفاق میں اتحادی حکومت پر بھی پڑیں گے۔

آج ہونے والے اہم انتخاب سے قبل سابق وزیر اعظم عمران خان نے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کی جس میں 186 اراکین صوبائی اسمبلی نے شرکت کی۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ انہیں 186 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے جو کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب جیتنے کی مطلوبہ تعداد ہے۔

سابق وفاقی وزیر اور رہنما مسلم لیگ (ق) مونس الہٰی نے بھی کہا کہ حمزہ شہباز کی حکومت کا کھیل ختم ہو چکا ہے کیونکہ ان کے پاس فتح کے لیے ارکان اسمبلی کی درکار تعداد موجود ہے۔

وزیر اعلی کے انتخاب کے لیے ہونے والا یہ مقابلہ تکینکی اعتبار سے رن آف الیکشن ہے، آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق الیکشن کا ایک مرحلہ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے اس لیے کسی بھی امیدوار کے لیے اب یہ لازم نہیں ہے کہ وہ 186ووٹ ہی حاصل کرے، جس امیدوار کے پاس ایک بھی ووٹ زیادہ ہوگا وہ آج وزیراعلی پنجاب منتخب ہوجائے گا۔

سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج شام 4 بجے طلب کیا گیا تھا، حکمراں اور اپوزیشن اتحاد کے ارکان اسمبلی لاہور کے علیحدہ علیحدہ ہوٹلوں میں ٹھہرائے گئے تھے، انہیں آج ووٹنگ کے لیے اکٹھے پنجاب اسمبلی پہنچایا گیا۔

پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے کارکنان حکومت کی جانب سے کسی ممکنہ کارروائی کے پیش نظر اپنے اراکین اسمبلی کی حفاظت کر رہے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انتخاب کے پرامن انعقاد کے لیے پنجاب اسمبلی کے اندر اور باہر فول پروف انتظامات کیے ہیں۔

ایوان میں ہنگامہ آرائی کے خدشات

خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آج ایوان میں مسلم لیگ (ن) اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوسکتی ہے جو 3 ماہ قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کے گزشتہ انتخاب کے دوران پی ٹی آئی نے اپنائی تھی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نےاپنے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کی حکمت عملی کے تحت مسلم لیگ (ق) کی حمایت حاصل کرنے کے لیے چوہدری پرویز الہٰی کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی تھی، اس لیے مارچ میں عثمان بزدار نے وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

16 اپریل کو پنجاب اسمبلی میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کی کارروائی شدید ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگئی تھی، اس دوران پرویز الہٰی سمیت بہت سے لوگ زخمی بھی ہوگئے تھے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایوان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

تاہم اس روز حمزہ شہباز 197 ووٹ لے کر وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے تھے جن میں پی ٹی آئی کے مندرجہ ذیل 25 منحرف اراکین کے ووٹ بھی شامل تھے:

  • راجہ صغیر احمد
  • ملک غلام رسول
  • سعید اکبر خان
  • محمد اجمل
  • عبدالعلیم خان
  • نذیر احمد چوہان
  • محمد امین ذوالقرنین
  • ملک نعمان لنگڑیال
  • محمد سلمان
  • زاور حسین وڑائچ
  • نذیر احمد خان
  • فدا حسین
  • زہرہ بتول
  • محمد طاہر
  • عائشہ نواز
  • ساجدہ یوسف
  • ہارون عمران گل
  • عظمیٰ کاردار
  • ملک اسد علی
  • اعجاز مسیح
  • محمد سبطین رضا
  • محسن عطا خان کھوسہ
  • میاں خالد محمود
  • مہر محمد اسلم
  • فیصل حیات

بعد ازاں پی ٹی آئی کے یہ 25 ارکان اسمبلی (جن میں 5 خصوصی نشستیں بھی شامل ہیں) پارٹی سے انحراف کی وجہ سے ڈی سیٹ کر دیے گئے تھے، جس کے بعد ایوان میں حمزہ شہباز نے اکثریت کھو دی تھی کیونکہ ان کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 197 سے کم ہو کر 172 رہ گئی تھی۔

یکم جولائی کو سپریم کورٹنے فیصلہ دیا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہوگا۔

ڈی سیٹ کیے جانے والے ارکان کی 25 نشستوں میں سے 5 مخصوص نشستوں کے علاوہ باقی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سے 15 نشستیں جیت کر پی ٹی آئی نے واضح کامیابی حاصل کی۔

گزشتہ روز چوہدری پرویز الہٰی کی زیر صدارت پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹی فیکیشن کے بعد پی ٹی آئی کے نومنتخب 15، مسلم لیگ (ن) کے 3 اور ایک آزاد رکن نے اسمبلی کے ارکان کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا جو آج وزیر اعلیٰ کے دوبارہ انتخاب کے لیے ووٹنگ میں حصہ لیں گے۔

پی ٹی آئی کے 15 ارکان اسمبلی کے حلف اٹھانے کے بعد ایوان میں تحریک انصاف کے کُل اراکین کی تعداد 178 جبکہ مسلم لیگ (ق) کے ارکین کی تعداد 10 ہے، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے اراکین کو ملا کر تعداد 188 ہے تاہم ایک رکن اسمبلی بیرون ملک موجود ہیں۔

پی ٹی آئی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری اپنا ووٹ نہیں ڈالیں گے کیونکہ وہ آج اجلاس کی صدارت کریں گے لہذا اپوزیشن اتحاد کے کُل ووٹوں کی تعداد 186 ہوگی۔

ایوان میں اکثریت کے دعوے، ہارس ٹریڈنگ کے الزامات

گزشتہ چند روز کے دوران حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے اکثریت کے دعووں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

پی ٹی آئی کارکنان نے لاہور کے لبرٹی چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا جبکہ پارٹی قیادت نے گزشتہ 2 روز میں سربراہ پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی لاہور میں موجودگی کی شدید مذمت کی۔

اس دوران انہوں نے صدر مسلم لیگ (ق) چوہدری شجاعت حسین سے ملاقاتیں کیں، اپوزیشن کا خیال ہے کہ آصف زرداری انتخابی عمل میں ہیر پھیر کر رہے ہیں اور اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کو حمزہ شہباز کی حمایت کے عوض بھاری پیشکش کی جا رہی ہے۔سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے دعویٰ کیا کہ سندھ ہاؤس میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ لاہور میں دوبارہ نظر آرہی ہے، اراکین صوبائی اسمبلی کو 50 کروڑ روپے تک کی پیش کش کرکے خریدا جارہا ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ جو کچھ پنجاب میں ہو رہا ہے، سپریم کورٹ کو اس کی انکوائری کرنی چاہیے، رانا ثنااللہ، عطا تارڑ اور آصف زرداری کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا جائے اور ان پر الیکشن میں خرید و فروخت کے مقدمات چلائے جائیں۔

پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی فیاض الحسن چوہان نے بھی کہا کہ آصف زرداری ’شیطانی کھیل‘ کھیل رہے ہیں، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ گھناؤنا کھیل بند نہ کیا گیا تو پی ٹی آئی کے کارکن بلاول ہاؤس کا گھیراؤ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کی وفاداریاں خریدنے کے لیے کھربوں روپے کی کرپشن کی لیکن صرف ایک کو ہی خرید سکے۔

پی ٹی آئی کے رکن پنجاب اسمبلی میاں مسعود پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو اپنی وفاداری بیچ کر ملک چھوڑ دیا۔

دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی مولانا الیاس چنیوٹی نے الزام عائد کیا کہ انہیں پی ٹی آئی نے وفاداری تبدیل کرنے کے لیے 10 کروڑ روپے کی پیشکش کی ہے۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ انہیں لاہور ہائی کورٹ نے قانون کے مطابق الیکشن کرانے کی ذمہ داری سونپی ہے اور وہ وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے شفاف اور منصفانہ انتخاب کو یقینی بنائیں گے۔

دریں اثنا آصف علی زرداری نے ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے لیے اپنی پارٹی کی واضح حمایت کا وعدہ کیا۔

وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے بھی کہا کہ تحریک انصاف کی صفوں میں ایسے لوگ جن کا ضمیر زندہ ہے اور شعور رکھتے ہیں وہ چوہدری پرویز الہٰی کے لیے وزیر اعلیٰ کے انتخابات میں ووٹ نہیں دیں گے۔

اپوزیشن کے ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہم اپنے تمام سیاسی آپشنز کو بھرپور طریقے سے استعمال کریں گے۔

اس سے قبل وہ علی الاعلان کہہ چکے ہیں کہ ووٹنگ کے روز اپوزیشن کے تقریباً 5 سے 7 ارکان اسمبلی غائب ہو سکتے ہیں۔

پولنگ کا عمل آج سہ پہر 4 بجے کے بعد شروع ہوگا، ایوان میں کسی رکن کو موبائل فون لانے یا گیلری میں کسی مہمان کو بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) نے چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کو حکم دیا ہے کہ وہ آج ہونے والے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں اپنی مرضی کے مطابق ووٹ ڈالنے کے لیے تمام صوبائی اسمبلی کے اراکین کا تحفظ یقینی بنائیں۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ وہ وزارت اعلیٰ کے عہدے کے لیے ’آزاد اور منصفانہ’ انتخاب کو یقینی بنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں لاہور ہائی کورٹ نے قانون کے مطابق الیکشن کرانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں