پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے معیشت کے حوالے سے غلط فیصلے کیے جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور قرضوں کی ادائیگی سے متعلق بیانات بھی اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار سے متضاد ہیں۔
لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے جو قومیں غلطیاں کرتی ہیں، ان کی آزادی باقی نہیں رہتی، معاشی تباہی کی سب سے بڑی مثال سلطنت عثمانیہ اور سوویت یونین ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی حالات انتہائی خراب ہیں اور یہاں ایک عام شہری کےلیے زندگی گزارنا مشکل ہوچکا ہے، اور اگر ہم نے اس کو ختم نہ کیا تو پاکستان کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے معاشی کے فیصلوں کے حوالے سے جو غلطیاں کی ہیں وہ پاکستان کے سامنے ہیں، افراط زر، مہنگائی اور بے روزگاری پاکستان کی معیشت کو کھوکھلا کر رہی ہیں، کورونا وائرس سے پہلے بھی ان کی کارکردگی کچھ نہیں تھی۔
کورونا وائرس کے بعد دنیا کے تمام ممالک میں مہنگائی ہوئی ہے لیکن پاکستان مہنگائی کے حوالے سےدنیا میں تیسرے نمبر پر ہے، پاکستان ایک خداداد وسائل کا حامل ملک ہونے کے باوجود بھی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور اگر ہم نے ہنگامی بنیادوں پر اس پر کام نہیں کیا تو ہمیں تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی کے حوالے سے مجھ سمیت تمام اپوزیشن نے حکومت کو تنبیہ کی اور ان سے مطالبہ کیا تھا کہ خدارا ایک عام شہری کے لیے کام کریں لیکن حکومت نے توجہ نہیں دی۔
شہباز شریف نے کہا کہ جب ان کے خلاف بات کی جاتی ہے تو وہ غصے میں آجاتے ہیں اور بھر اس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں جو قابل مذمت ہے اور گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی حکومت جب ختم ہوئی تو پاکستان پر 30 ہزار ارب روپے کی ادائیگیاں اور قرضے تھے اور مہنگائی کا تناسب 3 سے 4 فیصد کے اندر تھا اس کے برعکس موجودہ دور حکومت میں آئی ایم ایف کی نئی شرائط نے پوری قوم کو گلے سےجکڑ لیا ہے۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ یقیناً پاکستان کو ان حالت تک لانے میں ہم سب کا کردار ہے لیکن جب اگر ہم موازنہ کریں تو نواز شریف اور اس حکومت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، جب نواز شریف نے حکومت چھوڑی تواس وقت ملک کی جی ڈی پی 5.8 فیصد تھی اور آج جی ڈی پی سسکیاں لے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے 2018 میں کہا تھا کہ پاکستان کے 30 ہزار ارب روپے کے قرضوں اور ادائیگیوں میں 10 ارب روپے کی کمی کرونگا لیکن آج صرف 49 ماہ میں 20 ہزار ارب روپے کے قرضے لے لیے گئے ہیں، یعنی یہ قرضے پاکستان کی تاریخ میں لیے گئے قرضوں کے 70 فیصد ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ ہم نے قرضے لیے اور اس سے ملک کی ترقی کو فروغ کیا بجلی کے منصوبے لگائے پلوشن فری ٹرانسپورٹ کے منصوبے بنائے انہوں نے کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے قرضوں کی ادائیگی کی ہے لیکن اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار اس سے متضاد ہیں، بنگلادیش جو ہم نے الگ ہوکر وجود میں آیا اور اس کی جی ڈی پی بھی ہم سے زیادہ ہے۔
تجارتی خسارے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2018 سے آج کا مقابلہ کیا جائےتو ڈالر 55 روپےمہنگا ہوگیا ہے، آپ ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ملک میں درآمدات کا سیلاب آچکا ہے، تجارتی خسارہ 2 کروڑ 30 لاکھ ڈالر پر پہنچ چکا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستان گندم، چینی اور کپاس برآمد کرتا تھا اور آج ہم امپورٹ کر رہے ہیں، یہ کہنا کہ عمران خان حکومت ایماندار ہے تواس سےبڑا جھوٹ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت نے ابھی آئی ایم ایف کی شرائط بھی پوری کرنی ہیں،ہم نے اجتماعی طور پاکستان کےلیے سوچنا ہوگا، اگر یہ ہی حالات رہے تو پاکستان کو دفاع کے لیے بھی قرضے لینے پڑیں گے۔
ای وی ایم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جب عمران خان کنٹینر پر کھڑے تھے تب ہم بھی اسمبلی میں اصلاحات منظور کی لیکن اس وقت اپوزیشن کو اصلاحات میں شامل کیا گیا تھا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں متحدہ اپوزیشن کی مکمل نمائندگی تھی، اپوزیشن نے یکجاں ہو کر مقابلہ کیا ہے، اور اس پر میں اپوزیشن کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ اپوزیشن کے لانگ مارچ اور احتجاج کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا اجلاس 6 تاریخ کو ہوگا جس میں لانگ مارچ کا فیصلہ کیا جائے گا۔
شہباز شریف نے سیالکوٹ واقعے کی شدید مذمت کی اور ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری کی توقعات کا اظہار بھی کیا۔