لاہور میں انسداد منشیات کی خصوصی عدالت نے منشیات برآمدگی کیس میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کو فرد جرم کے لیے طلب کرلیا اور فرد جرم کی کارروائی کے لیے 25 جون کی تاریخ مقرر کر دی۔
وفاقی وزیر کو جولائی 2019 میں گزشتہ حکومت کے دور میں انسداد منشیات فورس نے گرفتار کیا تھا، جس نے ان کی گاڑی سے 15 کلوگرام ہیروئن برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
خصوصی عدالت نے گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’فرد جرم اگلی سماعت میں عائد کی جائے کیونکہ ملزم وفاقی وزیر داخلہ ہے اور انہیں فوری طور پر اسلام آباد جانا ہے‘۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’ریاستی پراسیکیوٹرز نے پہلے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا لیکن پھر عدالتی حکم پر رضامندی ظاہر کردی، ان حالات میں کیس کی مزید سماعت 25 جون تک ملتوی کی جاتی ہے‘۔
دوسری جانب عدالت نے رانا ثنااللہ کی پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹس کھولنے کی درخواست پر اے این ایف سے جواب طلب کرلیا۔
گزشتہ سماعت کے دوران رانا ثنااللہ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اے این ایف نے ان کے مؤکل پر گزشتہ 10 سال سے منشیات کا کاروبار کرنے کا الزام لگایا تھا، لیکن ان کے منجمد اثاثے اور بینک اکاؤنٹس اس سے پہلے ہی برقرار رکھے گئے تھے۔
انہوں نے کہا تھا کہ رانا ثنااللہ کو شدید مالی مسائل کا سامنا تھا کیونکہ وہ بینک سے اپنی تنخواہ نہیں نکال پارہے تھے اور اس لیے انہوں نے اپنے اکاؤنٹس کو غیر منجمد کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔
رانا ثنااللہ کے خلاف الزامات
واضح رہے کہ رانا ثنااللہ کو انسداد منشیات فورس کی لاہور ٹیم نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا۔
اے این ایف نے انہیں پنجاب کے علاقے سیکھکی کے نزدیک اسلام آباد-لاہور موٹروے سے گرفتار کیا تھا۔
ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کی گاڑی سے 15 کلوگرام ہیرائن برآمد ہوئی تھی، مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سیکیورٹی گارڈز سمیت 5 دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
رانا ثنااللہ کے خلاف کنٹرول آف نارکوٹک سبسٹینسز ایکٹ 1997 کے سیکشن 9 (سی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں سزائے موت یا عمر قید یا 14 سال تک قید کی سزا کے ساتھ ساتھ 10 لاکھ روپے تک جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
ٹرائل کورٹ سے ان کی دو بار ضمانت مسترد ہوئی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے انہیں 24 دسمبر 2019 کو رہا کر دیا تھا۔