سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے کہا ہے کہ ملک کی تاریخ میں کبھی بھی اتنے برے معاشی حالات نہیں تھے، جو آج ہیں، اس لیے بات کرنا چاہتا ہوں کہ ساری قوم کو پتا ہونا چاہیے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے جو معاشی صورتحال کے حوالے سے پاکستانیوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں، شاید ہی اس ملک کی تاریخ میں کبھی بھی اتنے برے معاشی حالات نہیں تھے، جو آج ہیں، اس لیے بات کرنا چاہتا ہوں کہ ساری قوم کو پتا ہونا چاہیے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اخبار اور میڈیا ہاؤسز کو آگا کرنا چاہیے تھا کہ ہم خطرے کے کس کنارے پر کھڑے ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ اس عوام کو آگاہ نہیں کررہے۔
عمران خان نے کہا کہ ساری قوم کو بتاؤں کہ حالات کدھر کھڑے ہیں، خدانخواستہ اور یہ کدھر جاسکتے ہیں یعنی اس سے بہت زیادہ برے ہوسکتے ہیں، ساری معاشی ٹیم کو بٹھایا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ یہ بتائیں کہ ہم یہاں پہنچے کیسے ہیں، اور اس سے نکلنے کا حل کیا ہے، اگر ہم نے ملک کو سنھبالنا ہے تو ہمیں کیا اقدامات کرنا ہوں گے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں آج صرف اپنی قوم سے مخاطب نہیں، میں اپنے اداروں سے بھی مخاطب ہوں، یہ ملک جس تیزی سے نیچے جا رہا ہے، اس کے سارے اداروں پر اثرات ہوں گے، ہمارے قومی سلامتی کے ادارے ہیں، نیشنل سیکیورٹی کی پالیسی ہم نے ہی بنائی تھی، جس کا ایک پہلو پاکستان کی ملٹری ہے جبکہ اس کا دوسرا پہلا پاکستان کی معیشت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم نے پالیسی بنائی تھی تو مثال دی تھی کہ سوویت یونین کی فوج دنیا کی طاقت ور فوج تھی لیکن جب وہ معاشی طور پر نیچے گیا تو آخر میں فوج سوویت یونین کو ٹوٹنے سے نہیں بچا سکی۔
عمران خان نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کے ادارے، جس میں فوج بہت بڑا کمپوننٹ ہے، ان سب کو سوچنا چاہے کہ آج ہم کدھر کھڑے ہیں، ہماری عدلیہ کو بھی رول ادا کرنا چاہیے، اللہ نے ججز کو جس مقام پر بٹھایا ہوا ہے، اگر خدانخواستہ ملک اسی تیزی سے نیچے چلا گیا تو وہ بھی جوابدہ ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے حیرت ہے کہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی کیوں آواز بلند کررہی، کیا بزنس کمیونٹی کو نظر نہیں آرہا کہ ملک کس طرف جا رہا ہے۔
عمران خان نے اپنے دور کی کارکردگی کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا کہ ہمارے دور میں ترسیلات زر اور برآمدات ریکارڈ ہوئی تھیں، ہمارا کسان سب سے زیادہ خوشحال تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ڈالر گیپ بڑھتا جارہا ہے، تحریک انصاف نے قرضے، قرضوں کی قسطیں واپس کرنے کے لیے لیے تھے، ان دو جماعتوں نے ملک کو مقروض کیا تھا۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ باہر کے سرمایہ کار یا کمرشل بینکوں نے پاکستان کو پیسہ دینا ہے کیونکہ پاکستان کی کریڈٹ رسک ریٹنگ تقریباً 100 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو ہمارے دور میں 5 فیصد تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پیسہ آنا نہیں ہے، معاشی سرگرمیاں نہیں ہونی، قرضے بھی چڑھتے جارہے ہیں، اس سے زیادہ خوفناک سناریو میں نے کبھی پاکستان کے اندر نہیں دیکھا جو آج سامنے آرہا ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ سب کو پتا ہے کہ اس کا صرف ایک حل صاف اور شفاف انتخابات ہے، اس کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اگر ملک میں سیاسی طور پر استحکام نہیں ہے تو سب سے پہلے معیشت متاثر ہوتی ہے، اس لیے کہ اگر میں نے صنعت لگانی ہے تو میں دیکھوں گا کہ اگلے دو، تین یا پانچ برس پاکستان کی صورتحال کیا ہوگی، اگر یہی نہیں پتا کہ اگلے چند ماہ کیا حالات ہوں گے، کونسی حکومت آئے گی، تو میں تو پاکستان میں پیسہ نہیں لگاؤں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آج انتخابات کے لیے آواز بلند نہیں کریں گے تو پھر آپ پاکستان کو اس سناریو میں دھکیل رہے ہوں گے جدھر آگے مزید معیشت نیچے جانے لگی ہے۔
اس دوران عمران خان نے سابق وفاقی شوکت ترین و دیگر پینل سے کہا کہ وہ معاشی صورتحال کے بارے میں صورتحال سے آگاہ کریں۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ مہنگائی پچاس سال میں سب سے زیادہ ہے، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال خراب ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ آئی ایم ایف بھی اس وقت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، چاہوں گا کہ نامور معیشت دان بتائیں گے کہ اگر ہماری حکومت آئے گی تو ہم اس صورتحال سے کیسے نکلیں گے ۔
سابق وفاقی وزیر سلمان شاہ نے بتایا کہ ہمیں سب سے پہلے مقامی اور بیرون ملک سرمایہ کاروں کو اعتماد دینا ہوگا، آفیشل ریٹ اور حوالہ کے ریٹ میں اتنا زیادہ فرق ہے، جس کو 250 روپے پر ڈالر مل سکتا ہے، وہ بینکاری نظام کے ذریعے 225 روپے پر کیوں بھیجے گا؟