معطلی کے خلاف سول ایوی ایشن اتھارٹی کے 3 اہلکاروں کی درخواستیں مسترد

سندھ ہائی کورٹ نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے 3 معطل اہلکاروں کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں جس میں مبینہ طور پر جعلی پائلٹ لائسنس جاری کیے جانے پر ان کے خلاف کارروائی کو چیلنج کیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے درخواستوں کو قابل سماعت نہ ہونے کی وجہ سے خارج کر دیا اور مشاہدہ کیا کہ اگر درخواست گزاران کے خلاف حتمی احکامات جاری کیے گئے تو وہ قانون کے تحت متبادل تلاش کر سکتے ہیں۔

تینوں عہدیداروں نے 2020 میں سندھ ہائی کورٹ کو درخواست دی تھی اور اپنے معطلی کے احکامات اور شوکاز نوٹسز کو چیلنج کیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے جعلی پائلٹ لائسنس تیار کرنے کے لیے یوزر آئی ڈی بنا کر سافٹ ویئر پروٹوکول کی خلاف ورزی کی تھی۔

دونوں فریقین کو سننے کے بعد بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دستیاب صوابدید کا آزادانہ استعمال نہیں کیا جا سکتا اور اسے مخصوص اور قابل نفاذ قانونی یا آئینی حقوق کی خلاف ورزی کو ظاہر کرتے ہوئے درست بنیادوں پر ہونا چاہیے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ اس طرح کی صوابدید کا استعمال آئین کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق بنائے گئے پیرامیٹرز کے حوالے سے منظم اور نپے تلے انداز میں کیا جانا چاہیے۔

تاہم بینچ نے نوٹ کیا کہ موجودہ درخواستوں میں ایسے عوامل کی کمی تھی اور سندھ ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کے تحت حاصل صوابدید کے استعمال میں نہ تو حقائق پر مبنی تنازعات میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی حقائق کے متنازع سوالات کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

اس نے مزید مشاہدہ کیا کہ سپریم کورٹ نے اس موضوع کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس میں جولائی 2020 میں بھی ایک حکم جاری کیا تھا اور مشاہدہ کیا تھا کہ کسی بھی مداخلت نے پورے عمل میں رکاوٹ ڈالی اور اسے روک دیا اور عدالتی مداخلت کے بغیر محکمانہ کارروائی کو مقررہ وقت پر مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

اس کے اختتام میں کہا گیا کہ یہ قانون کا ایک طے شدہ اصول ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 189 اور 190 کی بنیاد پر ریاست کے ہر ایک عضو پر لاگو ہوتا ہے۔

سی اے اے نے کہا کہ سی اے اے کی جانب سے تشکیل کردہ بورڈ آف انکوائری نے خلاف ورزی/بدعنوانی کی تحقیقات کی ہیں اور جعلی لائسنس جاری کرنے میں اتھارٹی کے کئی ملازمین کو ملوث پایا ہے۔

سی اے اے کے وکیل نے مزید استدلال کیا کہ عدالت عظمیٰ نے ایوی ایشن ریگولیٹر کو محکمانہ کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ ان تمام ملازمین کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے کی ہدایت بھی جاری کی جو جعلی لائسنس تنازعہ میں ملوث پائے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ درخواستیں قابل سماعت نہیں ہیں کیونکہ عدالت عظمیٰ پہلے ہی اس معاملے پر ایک حکم جاری کر چکی ہے اور اس کے باوجود درخواست گزاروں نے مجاز اتھارٹی کے سامنے ان کے پاس دستیاب متبادل حل حاصل کیے بغیر سندھ ہائی کوٹ سے رجوع کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں