مسئلہ کشمیر میں کسی بھی یکطرفہ کارروائی کے خلاف ہیں، چین

چین نے مسئلہ کشمیر میں ہر اس یکطرفہ کارروائی کی مخالفت کی ہے، جو صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دے۔ عمران خان اور شی جن پنگ کی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ پرامن اور خوشحال جنوبی ایشیا سبھی کے مفاد میں ہے۔

چین کے صدر شی جن پنگ اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے درمیان اتوار کے روز ہونے والی اہم ملاقات کے بعد بیجنگ نے کشمیر سے متعلق کسی بھی طرح کے یکطرفہ اقدامات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے خطے کی صورت حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہر محاذ پر قریبی تعلقات کو م‍زید فروغ دینے کا خواہاں ہے اور پرامن  اور خوشحال جنوبی ایشیا سبھی فریقوں کے مشترکہ مفاد میں ہے۔

چین نے کیا کہا؟

چینی صدر شی جن پنگ اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی ملاقات کے بعد بیجنگ میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گيا ہے، ’’چین سی پیک منصوبے کی  مزید ترقی کو آگے بڑھانے اور اس سے منسلک دیگر منصوبوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملانے کو تیار ہے۔‘‘

بیان کے مطابق، ’’فریقین نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ایک پرامن اور خوشحال جنوبی ایشیا سبھی فریقوں کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ انہوں نے علاقائی تعاون کو فروغ دینے اور خطے میں پائیدار امن، استحکام اور مشترکہ خوشحالی کے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے بات چیت اور تمام تصفیہ طلب تنازعات کے حل کی اہمیت پر زور دیا۔‘‘

اس پاکستانی چینی بیان میں کہا گیا ہے، ’’پاکستانی فریق نے چینی فریق کو جموں و کشمیر کی موجودہ صورت حال اور اس پر تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں آگاہ کیا، اور اس سے متعلق خدشات، موقف اور اس وقت کے اہم مسائل پر تبادلہ خیال بھی کیا۔‘‘

اس بیان میں مزید کہا گيا ہے، ’’چینی فریق نے اس بات کا اعادہ کیا کہ مسئلہ کشمیر تاریخ کا چھوڑا ہوا ایک تنازعہ ہے اور اسے اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کی بنیاد پر مناسب اور پرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔ چین  اس حوالے سے کسی بھی قسم کے ایسے یک طرفہ اقدامات کے خلاف ہے، جن سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہو،‘‘

دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کاوشوں کا اعتراف

پاکستان اور چین کے اس مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور کوششوں کو تسلیم کیا ہے اور دونوں فریقوں نے اپنے ’’ہر قسم کی دہشت گردی سے لڑنے کے عزم کا اعادہ کیا۔‘‘

پاکستانی وزیر اعظم اور چینی صدر کی ملاقات کے بعد جاری کردہ بیان کے مطابق، ’’فریقین نے پاکستان اور چین کی مسلح افواج کے درمیان مختلف سطحوں پر دفاعی تعاون کی موجودہ رفتار کو جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط دفاعی اور سکیورٹی تعاون خطے میں امن اور استحکام کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔‘‘

واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں چین پاکستان کو جنگی ٹینکوں، جنگی طیاروں اور جدید ترین بحری فریگیٹس سمیت دیگر ہتھیاروں کا سب سے بڑا سپلائر بن کر ابھرا ہے۔

اس بیان کے مطابق چینی صدر نے کہا کہ چین عالمی اور علاقائی امن و استحکام کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ سمیت دیگر کثیرالجہتی پلیٹ فارمز پر بھی پاکستان کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون کو مضبوط کرنے کا خواہاں ہے۔

ہفتے کے روز چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ نے بھی پاکستانی ہم منصب عمران خان سے ملاقات میں کہا تھا کہ پڑوس کی سفارت کاری میں پاکستان چین کی ترجیح ہے اور وہ اپنے کاروباری اداروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتا ہے۔

کشمیر سے متعلق بھارتی موقف

بھارت کی جانب سے ابھی تک اس چینی پاکستانی بیان پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا تاہم ماضی میں بھارت جموں و کشمیر کے حوالے سے چینی بیانات کو مسترد کرتا آیا ہے۔ وہ ایسے بیانات کے جواب میں اکثر یہ کہتا رہا ہے کہ جموں و کشمیر اور لداخ کے خطے بھارت کے اٹوٹ حصے ہیں، جنہیں کبھی الگ نہیں کیا جا سکتا۔

گزشتہ برس جولائی میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے ایک بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اکنامک کوریڈور اس بھارتی علاقے میں ہے، جس پر پاکستان نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔

تب ان کا مزید کہنا تھا، ’’ماضی کی طرح بھارت نے جموں اور کشمیر کے حوالے سے ایسے کسی بھی بیان کو مسترد کر دیا۔ مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور لداخ کا علاقہ بھارت کے اٹوٹ اور ناقابل تنسیخ حصے ہیں اور رہیں گے۔‘‘

بھارت نے اگست 2019ء میں ریاست جموں و کشمیر کے اپنے زیر انتظام حصے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس وقت سے پورا خطہ کشمیر سکیورٹی کے سخت حصار میں ہے۔ گزشتہ تقریباﹰ ڈھائی سال سے یہ خطے نئی دہلی حکومت کے انتظام میں ہیں اور وہاں جمہوری نظام مکمل طور پر معطل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں