مئی کے آخری ہفتے میں اسلام آباد مارچ کی کال دیں گے، عمران خان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ سارے پاکستانیوں کو مئی کے آخری ہفتے میں اسلام آباد مارچ کی کال دیں گے، جس کے لیے چاند رات سے تیاری شروع ہوگی۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے ویڈیوپیغام میں کہا کہ ‘آج ہماری کور کمیٹی کا اجلاس ہوا اور ہم نے تفصیل سے بحث کی ہے کہ ہم نے اسلام آباد میں کال دینی ہے وہ کب دینی ہے اور اس کی نوعیت کیا ہوگی’۔انہوں نے کہا کہ ‘ہمارا فیصلہ ہوا کہ مئی کے آخری ہفتے میں یہ کال دینے لگےہیں، سارے پاکستانیوں کو کال دینے لگےہیں، صرف تحریک انصاف کو نہیں، اس لیے کال دے رہے ہیں کہ ہمارے ملک کی توہین کی گئی ہے، ایک بیرون ملک سازش کے تحت پاکستان کے کرپٹ ترین لوگوں کو ملک پر مسلط کیا گیا ہے’۔

وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘کابینہ میں 60 فیصد لوگ ضمانت پر ہیں، جو وزیراعظم بنا ہے، اس کو کرائم منسٹر کہتےہیں، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) میں ان کے 40 ارب روپے کے کرپشن کے کیسز ہیں اور اسی لیے میں چاہتا ہوں ابھی سے سارے پاکستان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ سب تیاری کریں’۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ‘ہماری تیاری کا آغاز چاند رات سے ہوگا، اپنے نوجوانوں کو خاص طور پر کہنا چاہتا ہوں چاند رات کو جھنڈے لے کر نکلنا ہے اور ساری دنیا کو بتانا ہے کہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس کے بعد ہمارا اگلا لائحہ عمل اسلام آباد مارچ کی پوری تیاری ہوگی، جس کے بارے میں میرا ایمان ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مجموعہ ہوگا اور عوام کا سمندر اسلام آباد آئے گا اور یہ کہے گا اس کے بعد کوئی بیرونی ملک ہمارے اوپر ایک کرپٹ ٹولے کو مسلط نہیں کرسکے گا’۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ‘پاکستان کا جو فیصلہ ہوگا وہ پاکستان کے عوام کریں گے’۔

یاد رہے کہ عمران خان نے 23 اپریل کو بنی گالا میں پریس کانفرنس میں مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر سپریم کورٹ کی اوپن سماعت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کارکنان کو دارالحکومت اسلام آباد میں مارچ کی تیاری کرنے کی ہدایت کردی تھی۔

وزارت عظمیٰ سے معزول ہونے کے بعد اسلام آباد میں پہلی پریس کانفرنس میں سابق وزیر اعظم نے کہا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے تسلیم کیا ہے کہ مراسلہ حقیقت ہے، جس میں تکبر کے ساتھ دھمکی دی گئی تھی اور تکبر کے ساتھ کہا گیا تھا کہ عمران خان کو ہٹایا گیا تو معافی دی جائے گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مراسلے کی تحقیق کے لیے سپریم کورٹ کھلی سماعت کرے، تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ کون کون لوگ غیر ملکی سفارت خانے جاتے تھے۔

سابق وزیر اعظم نے الزام عائد کیا تھا کہ نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر سازش کی اور انہوں نے لوگوں سے ملاقاتیں کیں جب کہ ان کے چھوٹے بھائی اور آصف علی زرداری نے یہاں سے ان کا ساتھ دیا۔

پی ٹی آئی سربراہ نے دوران پریس کانفرنس چیف الیکشن کمشنر پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جانبدار ہیں، ان پر اعتماد نہیں، جب ہمیں ان پر اعتماد ہی نہیں تو انہیں مستعفی ہوجانا چاہیے۔

عمران خان نے اس سے قبل روز لاہور میں پارٹی کے جلسہ عام میں پوری قوم سے ’حقیقی‘ آزادی اور جمہوریت کے حصول کے لیے ملک گیر تحریک کے لیے تیار رہنے کی اپیل کی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں صرف پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ پورے پاکستان کو کال کر رہا ہوں، آپ سب کو گلیوں، شہروں اور دیہاتوں میں تیاری کرنی ہوگی، آپ کو میری کال کا انتظار کرنا ہوگا جب میں آپ سب کو اسلام آباد بلاؤں گا۔

بعد ازاں 27 اپریل کو ایوان اقبال میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ جب میں کال دوں گا تو کم از کم 20 لاکھ لوگ اسلام آباد پہنچیں، آپ لوگوں میں جاکر ہماری حقیقی آزادی کی تحریک کی تبلیغ کریں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ سب لیڈر بنیں، آپ نے لوگوں کے پاس میرا پیغام لے کر جانا ہے، آپ نے گلی محلوں میں تبلیغ کرنی ہے، آپ نے لوگوں کو بتانا ہے کہ اس ملک پر ایک سازش کے تحت ایک امپورٹڈ حکومت مسلط کی گئی ہے جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ امریکا ہمیں فتح کیے بغیر ان چوہوں کے ذریعے ہمیں کنٹرول کرے گا، یہ لوگ اپنی چوری کا پیسا بچانے کے لیے ساری قوم کو غلام بنا دیں گے۔

یاد رہے کہ 10 اپریل کو اس وقت کی اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹ دیتے ہوئے اس کو کامیاب کروایا تھا اور اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ملک کے نئے وزیراعظم منتخب ہوگئے تھے۔

پی ٹی آئی نے حکومت کے خاتمے کے بعد 13 اپریل سے ملک گیر احتجاجی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور پشاور میں اس سلسلے میں پہلا پشاور، دوسرا کراچی اور تیسرا جلسہ لاہور میں ہوا تھا۔

کیبل گیٹ

قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے برطرف کیے جانے کے بعد سے عمران خان نے شہباز شریف حکومت کو ‘امپورٹڈ’ قرار دیتے ہوئے نامنظور کیا ہے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش کا حصہ ہے، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے ان کے خلاف باضابطہ طور پر تحریک عدم اعتماد دائر کرنے سے ایک دن قبل 7 مارچ کو سفیر سے موصول ہونے والی کیبل اس سازش کا ثبوت ہے۔

مراسلے کا معاملہ پہلی بار عمران خان نے 27 مارچ کو ایک عوامی ریلی میں عوامی سطح پر اٹھایا تھا۔

یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں آج قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، میں الزامات نہیں لگا رہا، میرے پاس جو خط ہے، یہ ثبوت ہے اور میں آج یہ سب کے سامنے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی شک کر رہا ہے، میں ان کو دعوت دوں گا کہ آف دا ریکارڈ بات کریں گے اور آپ خود دیکھ سکیں گے کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ سب کے سامنے دل کھول کر کہہ رہا ہوں، بیرونی سازش پر ایسی کئی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ لندن میں بیٹھا ہوا کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے کے اوپر چل رہے ہیں۔

تاہم وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا۔

حیرت انگیز طور پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کسی بھی خط کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

31 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس (جس کی صدارت خود عمران نے کی تھی) کے بعد ایک بیان میں لفظ ‘سازش’ کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن ‘واضح مداخلت’ کا اعتراف کیا گیا، جس کے بعد ملک میں ایک مضبوط ڈیمارچ بھیجا جائے گا جس کا نام نہیں لیا گیا تھا۔

اس کے بعد سے عمران خان نے کئی عوامی خطابات میں انہیں اقتدار سے ہٹانے کی مبینہ سازش کا ذکلر کرتے ہوئے اس مراسلے کا حوالہ دیا۔

اپنے ایک خطاب میں عمران خان نے کہا کہ مراسلے میں پاکستانی سفیر اور امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا امور ڈونلڈ لو کے ساتھ ملاقات کی تفصیلات موجود ہیں جس میں مؤخر الذکر نے مبینہ طور پر پاکستان کو دھمکی دی تھی۔

14 اپریل کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں ہے۔

بعدازاں 22 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا 38واں اجلاس ہوا، اجلاس میں امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی جس کے دوران بتایا گیا عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں