وفاقی وزرا اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما گزشتہ رات پولیس اہلکار کے قتل پر ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں، پولیس نے رات گئے ماڈل کالونی میں پی ٹی آئی کے کارکنان کے گھر میں چھاپہ مارا اور ملزمان نے قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے فائرنگ کی جس میں پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا۔
لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز سہیل چوہدری نے ہسپتال کے باہر میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ گزشتہ رات لاہور ماڈل ٹاؤن میں مقامی افراد کے خلاف آپریشن میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے کمال احمد نامی پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا تھا۔
یہ کارروائی رات گئے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے گھروں میں چھاپے کے ساتھ کی گئی اور کارروائی اس وقت سامنے آئی جب پارٹی کی جانب سے 25 مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔
ڈی آئی جی سہیل چوہدری نے سیاسی جماعت کا نام لیے بغیر کہا کہ پولیس نے ’قانون کو ہاتھ میں لینے اور غنڈہ گردی کرنے والے‘ کارکنان کے خلاف کارروائی کی تھی۔
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ’ایک کارکن ساجد حسین کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا، گھر کی کی چھت پر موجود نامعلوم افراد نے فائرنگ کردی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’گولی کانسٹیبل کے سینے سے اوپر لگی، انہیں بچانے کے لیے متعدد کوششیں کی گئیں لیکن جب ہم ہسپتال پہنچے تو کانسٹیبل زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فائرنگ کرنے والے شخص کو فرار نہیں ہونے دیا جائے گا اور اس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
مقدمہ درج
بعد ازاں درج کیے گئے مقدمے میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ پولیس آپریشن پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر چھاپوں سے منسلک تھا، لیکن مبینہ طور پر گولی مارنے والے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ماڈل ٹاؤن میں کی جانے والی پہلی کارروائی کے دوران ایک بج کر 40 منٹ پر ساجد حسین کی گھر کی گھنٹی بجائی گئی، جس کے تھوڑی دیر بعد ساجد حسین اور اس کے بیٹے عکرمہ بخاری ہتھیاروں کے ہمراہ چھت پر ظاہر ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ساجد حسین نے ’دھمکی آمیز لہجے میں‘ پوچھا کہ پولیس رات گئے اس کے گھر کیوں آئی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق پولیس پارٹی نے جواب دیا کہ وہ سرچ آپریشن کر رہے ہیں، تاہم ساجد حسین اور اس کے بیٹے اشتعال میں آگئے اور ’اہلکاروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کردی‘۔
مقدمے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ساجد حسین نے اپنے بیٹے کو کہا کہ پولیس پر اسٹریٹ فائرنگ کریں، عکرمہ بخاری نے قتل کی نیت سے پولیس پارٹی پر اسٹریٹ فائرنگ کی اور گھر کے باہر کھڑے کانسٹیبل کمال احمد کے سینے میں گولی لگی جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ساجد حسین نے بھی پولیس پر فائرنگ کی اور ایک گولی سرکاری گاڑی پر لگی۔
مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302 (قتل)، 34 (مشترکہ ارادیت)، 324 (اقدامِ قتل)، 186 (کارِ سرکار میں مداخلت)، 353 (کارِ سرکار میں مداخلت کرتے ہوئے مجرمانہ قوت استعمال کرنا) اور 427 (نقصان پہنچانا) اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعہ 7 شامل کی گئی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بعد ازاں ساجد حسین اور اس کے بیٹے کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
حکومت، پی ٹی آئی کے ایک دوسرے پر الزامات
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’پولیس اہلکار کا قتل’اس بات کا ثبوت ہے کہ سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان ایک دہشت گرد ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کمال احمد کے قاتل عمران خان، شیخ رشید اور ان کے کارکنان ہیں اور ہم نے ’خونی مارچ‘ کے منصوبہ سازوں کا احتساب کرنے کا عزم کیا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ فائرنگ کے واقعے نے ثابت کر دیا کہ پی ٹی آئی پرامن مارچ نہیں چاہتی ’جو لوگ دوسروں کو گالیاں دیتے تھے انہوں نے اب گولیاں چلانا شروع کردی ہیں، انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا، اب قانون انہیں جواب دہ بنائے گا‘۔
وزیر داخلہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ عمران خان، لانگ مارچ کی آڑ میں ملک میں خانہ جنگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’ہم خانہ جنگی، افراتفری اور ملک میں امن و امان کی ابتر صورتحال کو روکیں گے‘۔
ثناء اللہ نے کانسٹیبل کے اہل خانہ سے تعزیت کی اور کہا کہ ان کے اہل خانہ کو شہدا پیکج دیا جائے گا، جس کے تحت مقتول پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ کو معاوضہ اور دیگر سہولیات دی جائیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت خاندان کی بہبود اور بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری لے گی۔وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’بات گالیوں سے بڑھ کر گولیوں تک آچکی ہے، کانسٹیبل کمال کا پی ٹی آئی کارکن کے ہاتھوں قتل فساد پھیلانے کی سازش ہے، قانون سے کھلواڑ کرنے والوں کا راستہ آہنی ہاتھوں سے اب بھی نہ روکا تو یہ فتنہ پورے ملک میں پھیلے گا، شہید کمال احمد کے اہلخانہ کو انصاف کا یقین دلاتا اور سلام پیش کرتا ہوں‘۔
انہوں نے انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کو واقعے کی رپورٹ پیش کرنے اور ذمہ داروں کو جلد گرفتار کرنے کی ہدایت کی۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی نائب صد مریم نواز نے کہا کہ ‘آج فتنے کی کُرسی کی لالچ کی وجہ سے ایک ماں کا لختِ جگر اس سے الگ ہوگیا اور پاکستان کا بیٹا بے دردی سے شہید کر دیا گیا، کئی دنوں سے ریاست کو ‘خونی انقلاب’ کی دھمکیاں دینے والوں نے آج سے اپنے ناپاک منصوبے کا آغاز کردیا ہے، قوم کے محافظوں پر گولیاں برسانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں’۔
جس کے جواب میں سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ ‘اس قتل کا ٹرائل ہوگا آپ کے خاندان کے جرائم میں ایک اور اضافہ ہوا ہے، پولیس کو غیر قانونی ریڈ کے لیے اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا جرم ہے، آدھی رات کو سابق فوجیوں کے گھر زبردستی داخل ہوں وہ کیا کریں گے ان کا ردعمل کیا ہوگا؟’
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس اہلکاروں نے خواتین اور بچوں کے ساتھ ’بدتمیزی‘ کی اور لوگوں کو ’تشدد‘ کیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ خواتین سمیت 450 سے زائد کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ’سابق فوجیوں اور سول اداروں سے ریٹائر ہونے والے افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹس کے مطابق ایک ریٹائرڈ میجر کے خاندان نے آدھی رات کے بعد ان کے گھر میں زبردستی داخل ہونے پر فائرنگ کر دی کہ وہ ڈاکو ہیں‘۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ رانا ثنااللہ اور حمزہ شہباز اس واقعے کے ذمہ دار ہیں جس کے نتیجے میں پولیس اہلکار جان کی بازی ہار گیا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز پولیس کی جانب سے بغیر وارنٹ کے ایک ہزار 100 گھروں میں چھاپے مارے گئے تھے۔
کریک ڈاؤن
خیال رہے کہ لاہور میں سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کے گھروں پر رات گئے پولیس کی کارروائی کی اطلاعات موصول ہوئی جبکہ شیخ رشید احمد کی رہائش گاہ لال حویلی کے ساتھ ساتھ راولپنڈی میں فیاض الحسن چوہان اور اعجاز خان ججی کے گھروں پر بھی مبینہ طور پر چھاپے مارے گئے۔
علاوہ ازیں سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ اسلام آباد میں ان کا گھر زیر نگرانی ہے جس کی وجہ سے وہ جہلم روانہ ہوئے ہیں۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں مبینہ طور پر پولیس کو پنجاب میں مقیم پی ٹی آئی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جن میں عثمان ڈار، ملک وقار احمد، انجینئر کاشف کھرل، مظہر اقبال گجر اور دیگر شامل ہیں۔