اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں ترمیمی فنانس بِل (منی بجٹ) پیش کیے جانے پر حکومت کا بھرپور مقابلہ کرنے کا اعلان کردیا۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ مِنی بجٹ بل اور اسٹیٹ بینک بل آرہاہے اس میں ہم خودمختاری سرنڈر کرنے جارہےہیں، ملک کی معاشی خودمختاری سرنڈر نہ کریں، خدا کے لیے نہ مِنی بجٹ لائیں اور نہ اسٹیٹ بینک بل لائیں، عوام کا احساس کریں۔
قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ سُنا ہے کوئی مِنی بجٹ لایا جارہا ہے، مہنگائی، بے روزگاری اورگیس کی قلت نے عوام کا بُرا حال کررکھا ہے، مِنی بجٹ سے لوگوں کے دکھوں میں اضافہ ہوگا، سب کو مل کر اسے روکنا ہوگا۔
اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان مالی مشکلات سے دوچار ہے، پاکستان کی مالی مشکلات کے پیچھے کون سے عوامل ہیں ان عوامل کو دیکھنے اور سنجیدہ بات کرنے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان مالی مشکلات سے دوچار ہے، پاکستان کی مالی مشکلات کے پیچھے کون سے عوامل ہیں ان عوامل کو دیکھنے اور سنجیدہ بات کرنے کی ضرورت ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی معاشی خود مختاری کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔
شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی کی تاہم گنتی کرنے پر کورم پورا نکلا اور شاہ محمود نے خطاب جاری رکھا۔
بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس کل شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
علاوہ ازیں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ کچھ نہیں ہونے والا ، عمران خان ڈنکے کی چوٹ پر پانچ سال پورے کریں گے، منی بجٹ 12 کو پیش ہو یا 15 جنوری کو کوئی قیامت نہیں آنی، منی بجٹ پاس ہوجائے گا۔
منی بجٹ میں کیا ہوگا؟
مہنگائی سے کچلے عوام کو مزید کچلنے کے لیے منی بجٹ جلد آ رہا ہے، پیٹرول پر ڈیولپمنٹ لیوی نامی ٹیکس مزید بڑھا کر 30 روپے کر دیا جائے گا۔
اس کے نتیجے میں پیٹرول مزید مہنگا کر کے حکومت عوام سے 356 ارب روپے اکٹھے کرے گی۔
اس کے علاوہ اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ بھی ختم ، 350 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگیں گے، 12 جنوری کو آئی ایم ایف کے آئندہ اجلاس سے پہلے ممکنہ طور پر یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے گا۔حکومت 12 جنوری سے پہلے ترمیمی مالیاتی بل قومی اسمبلی میں پیش کر ے گی، آسان الفاظ میں بات یہ ہے کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں منی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا جا رہا ہے اور یہ سب عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی کڑی شرائط پوری کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے مقرر کردہ وزیر خزانہ شوکت ترین آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے کا ذمہ دار ، نام لیے بغیر، سابق مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو گردانتے ہیں، مگر ذمہ دار کوئی بھی وزیر یا مشیر ہو ، حکومت اس سے بر ی الذمہ نہیں ہو سکتی۔
آئی ایم ایف نے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی قسط جاری کرنے کے لیے اپنی شرائط پر عمل درآمد کی یقین دہانی حاصل کی ہے۔ ان شرائط کے تحت 350ارب روپے کے ٹیکس استثنیٰ ختم کرنا ہوں گے، سادہ بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام سے 350 ارب روپے کے نئے ٹیکس وصول کیے جائیں گے۔
ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5 ہزار 829 ارب روپے سے بڑھا کر 6 ہزار 100 ارب روپے مقرر کرنا ہو گا۔ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 600 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف تھا، آئی ایم ایف نے اسے کم کرکے 356 ارب روپے کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
اس کے علاوہ ترقیاتی بجٹ میں200 ارب روپے کی کمی کرنا ہوگی، بجلی کے بلوں میں اضافہ ہو گا لیکن آہستہ آہستہ۔
منی بجٹ کے بعد مہنگائی کا ایک اور طوفان آئے گا جس میں متوسط طبقے کیلئے خود کو سنبھالنا مزید مشکل ہوجائے گا۔