پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) ابھی تک توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کی بحالی کے لیے عملے کی سطح کے معاہدے کے قریب پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، جس کی وجہ سے حکام اس خلا کو پر کرنے اور مالی سال 23-2022 کا اپڈیٹڈ وفاقی بجٹ قومی اسمبلی سے منظور کرانے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کے حکام ریونیو اور اخراجات کے اقدامات کی بنیاد پر اتوار (19 جون) تک عملے کی سطح کے معاہدے کو مکمل کرنے کی توقع کر رہے تھے۔
تاہم آئی ایم ایف کے عملے کو اب بھی 95 کھرب روپے سے زائد کے اخراجات پر تحفظات ہیں جو حکام نے آئندہ مالی سال کے لیے مختص کیے ہیں۔
آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق بجٹ میں ریونیو کے اقدامات بھی 7 کھرب روپے کے کچھ زیادہ کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
وزارت خزانہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں ابھی تک آئی ایم ایف سے اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت کا پہلا مسودہ موصول نہیں ہوا کیونکہ بعض معاملات غیر طے رہے، انہوں نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ بہت قریب سے کام کر رہے ہیں اور جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔
وزارت خزانہ کے پروگراموں کے شیڈول کے مطابق حکومت کا 28-27 جون کو قومی اسمبلی سے بجٹ 23-2022 منظور کرانے کا ہدف ہے۔
تاہم بجٹ کی منظوری کے لیے اسے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنا ہوگا تاکہ طے شدہ اقدامات کو بجٹ میں محفوظ کیا جاسکے، کسی بھی صورت میں آئین کے تحت یکم جولائی سے اس کے نفاذ کو قانونی طور پر یقینی بنانے کے لیے پارلیمنٹ سے بجٹ کو 28 جون تک پاس کرانا ہوگا۔
ایسے میں کہ جب کہ دونوں فریق ذاتی انکم ٹیکس سلیبس اور اس کی شرح پر منقسم رہے، وفاقی حکام کو ایک اور دھچکا اس وقت لگا جب صوبوں نے اپنے بجٹ پیش کیے جس سے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے تقریباً ایک فیصد کا ایک اور شارٹ فال پیدا ہوا، بظاہر اس کا مطلب ہے کہ بنیادی کھاتہ 152 ارب روپے کے سرپلس کے بجائے بڑے خسارے میں ہوگا۔
وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں چاروں صوبوں سے 800 ارب روپے کیش سرپلس کا تخمینہ لگایا تھا، تاہم اب تک صرف پنجاب حکومت نے 125 ارب روپے کے اضافی بجٹ کا اعلان کیا جبکہ سندھ نے 35 ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا نے سرپلس کا وعدہ کیا اور نہ ہی اپنے بجٹ میں خسارے کا تخمینہ لگایا ہے، بلوچستان نے ابھی تک اپنے بجٹ کا اعلان نہیں کیا لیکن اس میں کوئی قابل قدر اضافی رقم فراہم کرنے کا امکان نہیں ہے۔
800 ارب روپے کے صوبائی سرپلس کی بنیاد پر وفاق نے آئندہ مالی سال کے لیے مجموعی بجٹ خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کا 4.9 فیصد یا 38 کھرب روپے لگایا تھا کیونکہ اس نے اپنے وفاقی بجٹ کے خسارے کا تخمینہ جی ڈی پی کا 5.9 فیصد یا 46 کھرب روپے لگایا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وفاقی حکومت صوبوں کو اپنے اخراجات کم کرنے یا محصولات بڑھانے کے لیے قائل نہیں کرتی، بنیادی کھاتہ 650 ارب روپے کے خسارے میں رہے گا۔
یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے خیبرپختونخوا حکومت رواں مالی سال کے دوران اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پہلے ہی اوور ڈرافٹ پر چل رہی تھی۔
کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے گزشتہ ہفتے کے آخر تک یعنی وفاقی بجٹ کی پیش کش کے بعد خیبرپختونخوا کے لیے 115 ارب روپے کی ضمنی گرانٹ، بجٹ اوورون، کی منظوری دی تھی۔
گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ میں وزارت خزانہ نے ای سی سی کو مطلع کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے قرض لینے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
آئی ایم ایف کی سرپرستی میں کی جانے والی ان اصلاحات سے پہلے صوبے اسٹیٹ بینک سے ایڈوانسز (اوور ڈرافٹ کی سہولت) حاصل کر رہے تھے۔
ممانعت کے بعد صوبوں کو اس طرح کے ایڈوانسز جاری رکھنے کے قابل بنانے کے لیے ای سی سی نے جون 2020 میں صوبائی حکومتوں کے لیے قرض دینے کی ایک نئی پالیسی مرتب کی تھی، اس کے علاوہ ان کے طریقوں اور ذرائع کی حدوں کو بھی بڑھایا تھا۔
اس سلسلے میں چاروں صوبوں کے ساتھ سہ فریقی معاہدوں پر دستخط کیے گئے تھے۔
معاہدہ اسٹیٹ بینک کو وفاقی اور صوبائی حکومت کے کھاتوں کو ڈیبٹ/کریڈٹ کرنے کا اختیار دیتا ہے اور جب کسی صوبے کو پیشگی طریقوں اور ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے یا اس کے پاس اس صوبے کی طرف سے حاصل کردہ ایڈوانس کو کلیئر کرنے کے لیے کافی بیلنس ہوتا ہے۔
چاروں صوبوں کے ایڈوانسز کے طریقوں اور ذرائع کی موجودہ حد تقریباً 164.3 ارب روپے ہے جس میں پنجاب کے لیے 77 ارب روپے، سندھ کے لیے 39 ارب روپے، خیبرپختونخوا کے لیے 31.3 ارب روپے اور بلوچستان کے لیے 17 ارب روپے ہے۔