غیریقینی سیاسی صورتحال کے سبب ڈالر 224 روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا

ملکی کرنسی کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور ڈالر6 روپے 25 پیسے مہنگا ہو کر 222 روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا ہے۔

منگل کو دن کے آغاز کے ساتھ ہی ڈالر کی قدر میں 50 پیسے کی کمی واقع ہوئی جہاں گزشتہ روز ڈالر 215 روپے 20 پیسے کی سطح پر بند ہوا تھا۔ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہا اور کراچی انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 1 روپے 75 پیسے مہنگا ہو کر 217 روپے 50پیسے کی ریکارڈ سطح پر آگیا۔

بعد ازاں مارکیٹ میں روپے کی گراوٹ کا سلسلہ تیزی سے جاری رہا اور کراچی انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 5روپے 25 پیسے مہنگا ہو کر 221روپے کی ریکارڈ سطح پر آگیا جبکہ اس کے بعد بھی بتدریج ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق ڈالر گزشتہ روز کے 215.20 روپے کے مقابلے میں 8.8 روپے یا 4 فیصد اضافے کے ساتھ دوپہر ڈھائی بجے کے قریب 224 روپے تک پہنچ گیا۔

میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے کہا کہ ضمنی انتخابات کے بعد پنجاب اور مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے خوف کی وجہ سے مالیاتی منڈیاں افرا تفری کا شکار ہیں اور ڈالر خرید رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، دوست ممالک اور دوطرفہ ذرائع سے رقم کے حصول کے حوالے سے تحفظات کی وجہ سے درآمد کنندگان کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

سعد بن نصیر نے ان تمام عوامل کے علاوہ امریکی ریٹنگ ایجنسی ’فچ ‘ کی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ مستحکم سے منفی کیے جانے کو بھی مارکیٹ میں افراتفری کی وجہ قرار دیا۔

چئیرمین فاریکس ایسوسی ایشن ملک بوستان نے کہا کہ ملک میں سیاسی حالات کو جواز بنا کر بینک ڈالر کی قیمت میں سٹہ بازی کررہے ہیں جس کا اسٹیٹ بینک کو نوٹس لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں غیر ضروری طور پر ڈالر کی قیمت کو بڑھنے سے روکنا چاہیے، بینکس کی اجاراہ داری کے خاتمے کے لیے فوری طور پر ڈالر کی فاروڈ بکنگ پر پابندی عائد کی جائے تاکہ مارکیٹ میں پینک والی صورتحال کو روکا جا سکے۔

سرمایہ کاری فرم الفا بیٹا کور کے چیف ایگزیکٹو آفیسر خرم شہزاد نے بھی روپے کی تیزی سے گراوٹ کی وجہ فچ کی جانب سے ریٹنگ میں کمی اور عالمی رجحان کو قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی منڈی میں ڈالر تقریباً تمام عالمی کرنسیوں کے مقابلے مضبوط ہو رہا ہے، پاکستانی روپیہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پاکستان کے بیرونی اکاؤنٹ کے مسائل ابھی تک حل نہیں ہوئے ہیں، آئی ایم ایف کو ابھی آن بورڈ ہونا اور بہاؤ ابھی مکمل ہونا باقی ہے، عالمی درجہ بندی کرنے والی ایجنسیوں نے معیشت کا منفی منظرنامہ پیش کیا ہے، اس لیے یہ ایک اضافی بوجھ ہے جو مالیاتی منڈیوں پر بالعموم اور غیر ملکی کرنسی کی منڈی پر خاص طور پر اثر کررہا ہے۔

خرم شہزاد نے تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ ایک جگہ جمع ہوں اور روپے کی گراوٹ کو روکنے کے لیے حکمت عملی بنائیں۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے تاہم سعد بن نصیر سے اختلاف کیا اور کہا کہ اوپن مارکیٹ اور انٹربینک مارکیٹ دونوں میں سولر کی کوئی مانگ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کی شرائط میں سے ایک ہے کہ ہم روپے کی قدر میں کمی کرتے ہیں، اگر روپیہ ڈالر کے مقابلے 225 کی سطح پر آتا ہے تو ہم توقع کرتے ہیں کہ حکومت مداخلت کرے گی۔

ظفر پراچہ نے کہا کہ فچ کی رپورٹ روپے کی قدر کو مزید متاثر کرے گی۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت اور ریاستی ادارے روپے کی گراوٹ کو روکنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کر رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کا تعلق صرف حکومتیں بنانے یا بچانے سے ہے، کسی کو ملک و قوم کی فکر نہیں، تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نکاتی ایجنڈا بنانا چاہیے، سری لنکا کی حالت ہمارے سامنے ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو معاشی استحکام کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے جس میں بشمول بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ترسیلات زر میں اضافے کے لیے سہولیات فراہم کرنا اور اشرافیہ اور پارلیمنٹیرینز کو سہولت فراہم نہ کرنا شامل ہے ورنہ بہت دیر ہو سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں