سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اداروں بالخصوص فوج کے خلاف توہین آمیز منظم مہم میں کمی آنے کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے اس مہم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی سست پڑتی دکھائی دے رہی ہے، تاہم ایف آئی اے کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس اس طرح کی مہمات سے متعلق مکمل ڈیٹا کا آن لائن تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز ’امپورٹیڈ حکومت نامنظور‘ کے علاوہ 3 فوج مخالف ہیش ٹیگز پاکستان میں ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہے، ایسے ٹرینڈز میں فوج اور عدلیہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
فوج مخالف ٹرینڈز میں چند ہزار ٹوئٹس تھیں، جبکہ ’غلطی سدھارو الیکشن کرواؤ‘ کا ٹرینڈ ایک لاکھ 40 ہزار ٹوئٹس تک پہنچ گیا اور ’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ 3 لاکھ ٹوئٹس کی گئیں۔
اس طرح کے ڈیٹا کی مانیٹرنگ کرنے والے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کے ایک عہدیدار کے مطابق گزشتہ 7 روز کے دوران اس ہیش ٹیگ کے ساتھ 5 لاکھ 91 ہزار ٹوئٹس کیے گئے ہیں، تاہم 10 اپریل کو عمران خان کے برطرف ہونے کے بعد کے دنوں میں فوج اور عدلیہ کے خلاف یومیہ 20 ہزار سے زائد ٹوئٹس کے ساتھ ٹوئٹر پر ایک مضبوط رجحان دیکھا گیا۔
ایک سرکاری ذرائع نے بتایا کہ فوج اور عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم میں کمی آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامی سمجھے جانے والے سوشل میڈیا کارکنوں کے خلاف ایف آئی اے کی فوری کارروائی سست پڑ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹوئٹر اور دیگر آن لائن سائٹس پر فوج اور عدلیہ مخالف ہیش ٹیگز میں 2 بڑی وجوہات کی وجہ سے کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے، ایک پی ٹی آئی قیادت کی مداخلت اور دوسرا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا پر عمران خان کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد اور پی ٹی آئی کے کچھ دیگر سوشل میڈیا کارکنوں کے گھروں پر چھاپے نے اس مہم کو روکنے میں مدد فراہم کی۔
10 اپریل کو اندرون اور بیرون ملک سے کام کرنے والے سوشل میڈیا کارکنوں کی جانب سے اداروں کے خلاف ایک منظم انداز میں مہم شروع کی گئی تھی، پی ٹی آئی سے وابستہ زیادہ تر سوشل میڈیا کارکن مبینہ طور پر ایف آئی اے کی کارروائی سے بچنے کے لیے روپوش ہو گئے ہیں۔
پی ٹی آئی ذرائع نے بتایا کہ اداروں کے خلاف مہم سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن رہی تھی اس لیے پارٹی کے کچھ سینئر رہنماؤں نے عمران خان سے درخواست کی تھی کہ وہ پارٹی کے حامیوں کو واضح پیغام دیں کہ وہ فوج اور عدلیہ کو نشانہ نہ بنائیں کیونکہ یہ مستقبل میں پارٹی کے مفادات کے لیے اچھا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بظاہر اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے عمران خان نے چند روز قبل اسپیسز (ٹوئٹر پر ایک لائیو آڈیو فیچر) کے ذریعے دنیا بھر کے تقریباً 5 لاکھ صارفین سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے واضح طور پر کہا کہ وہ فوج کے خلاف بات نہ کریں، اس کا کسی نہ کسی حد تک ان پر مثبت اثر پڑا کیونکہ اگلے دن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فوج کی حمایت میں بھی تبصرے دیکھنے کو ملے۔
ایک ہفتے تک جاری رہنے والی کارروائی میں ایف آئی اے نے پنجاب میں تقریباً 17 مشتبہ افراد کو ان اداروں کے خلاف مہم میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا جو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سابق وزیراعظم کے برطرف ہونے کے بعد شروع ہوئی تھی۔
ان میں سے کچھ کو مختصر پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا گیا جبکہ دیگر کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی اور سائبر کرائم ونگ نے اس معاملے پر مکمل رازداری رکھی جس نے ایک خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر آپریشن کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے 30 سے زائد ایسے مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی جن کی شناخت خفیہ ایجنسی نے کی تھی جو کہ منظم طریقے سے چلائی گئی اس مہم میں ملوث تھے، ایف آئی اے کو انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایسے 50 کارکنوں کی فہرست فراہم کی تھی جن پر ہاتھ ڈالا جانا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے کے پاس اس طرح کی مہم سے متعلق مکمل آن لائن ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے عام طور پر ان لوگوں کا پیچھا کرتی ہے جو (سوشل میڈیا پر) ادارے کے خلاف ایسی ہتک آمیز مہم چلا رہے ہیں لیکن اس کے پاس ٹھوس کارروائی اور مستقبل کی حکمت عملی کے لیے لاکھوں سوشل میڈیا پوسٹس کا تجزیہ کرنے کے لیے ٹیکنالوجی اور انسانی وسائل دونوں کی کمی ہے۔
ذرائع نے مزید کہا کہ ایف آئی اے عام طور پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے ایسی ہتک آمیز پوسٹس کو ہٹانے کے لیے کہتی ہے اور ٹوئٹر اور فیس بک کو ایسے اکاؤنٹس بند کرنے کے لیے درخواست لکھتی ہے۔