پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ اگر عمران خان کو کچھ ہوا یا ان کی جان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو پاکستان میں وہ حالات پیدا ہوجائیں گے جنہیں قابو کرنا مشکل ہوجائے گا۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ ان کے دورِ حکومت میں زراعت میں نمو کی شرح 3.5 سے 4 فیصد کے درمیان رہی، پاکستان کی نصف آبادی سے زائد زراعت پر انحصار کرتی ہے، تین سال زراعت کی کارکردگی بہترین رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ صنعت اور سروسز میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا، اس دوران بڑے پیمانے پر معاشی ترقی دیکھنے کو ملی تھی۔
روزگار اور ملازمت کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت کے پہلے 3 سال کے اعداد و شمار کے مطابق 55 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے تھے، اس میں کورونا وائرس کا عرصہ بھی شامل ہے، اس دوران بڑی بڑی معیشتیں بہہ گئی تھیں۔
ان کا کہنا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے 5 سال میں 57 لاکھ روزگار کا اضافہ ہوا تھا، یعنی جتنا اضافہ انہوں نے 5 سال میں کیا اتنا اضافہ تحریک انصاف کی حکومت نے 3 سال میں کیا تھا۔
’معیشت کا پہیہ چلنا شروع ہوا تو حکومت کو گرادیا گیا‘
اسد عمر نے کہا کہ ابھی معیشت کا پہیہ چلنا ہی شروع ہوا تھا کہ بیرون ملک سازش اور مداخلت کرکے، بند کمروں میں سازشیں کر کے عمران خان کی حکومت کو گرادیا گیا، پاکستان کے استحکام پر حملہ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 200 روپے سے اوپر جاچکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ معیشت میں غیر یقینی صورتحال زہر ہوتی ہے، اس کو حل کرنے کا ایک راستہ وہ ہے جو بہتری کی طرف جاتا ہے، بہتری کا راستہ انتخابات ہے، جس سے سیاسی افراتفری اور معاشی عدم استحکام ختم ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا راستہ یہ ہے جس کی تجویز دی جارہی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کیسے عمران خان باہر نکلتا ہے، یہ عمران خان کی اکیلے کی جدوجہد نہیں ہے، یہ قوم فیصلہ کر چکی ہے کہ اس قوم کو غلامی منظور نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ دھونس، زبردستی اور اسلحے کے استعمال سے کسی کو دبا سکتا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی غلط فہمی ہے، یہ سب ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔
’بند کمروں میں عمران خان کو بھی مشورے دیے گئے‘
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ آپ کو وہ دن بھی یاد ہوگا جب کہا گیا تھا کہ اکبر بگٹی کو ہم نے مار دیا ہے اور اسے ایسے مارا گیا کہ اس کو خود پتا نہیں چلا، اکبر بگٹی کو مارے ہوئے 15 برس گزر گئے ہیں اور بلوچستان آج تک سنبھالا نہیں گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ باتیں بند کمروں میں بہت اچھی لگتی ہیں جو طاقت کے نشے میں ہوتے ہیں وہ اسی قسم کی باتیں کرتے ہیں، نواز شریف گوجرانوالہ سے نکل رہے تھے اور مولانا فضل الرحمٰن آرہے تھے، دھرنے دینے تو اسی قسم کے مشورے عمران خان کو بھی دیے جاتے تھے، لیکن عمران خان کا ہر بار ان کو ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ یہ ان کا آئینی حق ہے اس میں پریشانی کس بات کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام فیصلہ کرچکے ہیں، چاہے آپ حلیم عادل شیخ کے گھر میں ایک بار چھاپہ ماریں یا دو بار اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، لوگ اب گھر بیٹھنے والے نہیں ہے، پاکستان کے عوام کا فیصلہ پورے پاکستان میں نظر آرہا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ’میں لوگوں سے سوال پوچھ رہا تھا کہ بھارت نے جو بالاکوٹ میں حملہ کیا تھا جس میں ایک کوا اور 12 درخت گرائے تھے، کیا اس میں پاکستان کو زیادہ نقصان ہوا یا جو بیرونی مداخلت سے عدم اعتماد کی تحریک لاکر سیاسی عدم استحکام کیا گیا ہے‘۔
اسد عمر نے کہا کہ اگر روپے کی قدر میں ایک روپے روز کمی آتی ہے تو پاکستان کے قرضے میں 130 ارب روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے، ایک ہفتے مسلسل گراوٹ جاری ہے، عدم اعتماد کی تحریک کے بعد سے اب تک ہمارے قرضے میں 2 ہزار 860 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
’فیصلہ کرنے والے کان کھول کر سن لیں،تاریخ معاف نہیں کرتی‘
انہوں نے کہا کہ فیصلہ سازی کرنے والے کان کھول کر سن لیں لوگ معاف کردیتے ہیں تاریخ معاف نہیں کرتی، اگر آپ نے کوئی غلطی کی تو پاکستان کو شدید نقصان ہوگا۔
پی ٹی آئی رہنما نے دہرایا کہ وقت بہت کم رہ گیا ہے، اگر آپ نے فیصلے نہیں کیے تو تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی۔
لانگ مارچ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں لانگ مارچ کی تیاریوں میں عمران خان کے ساتھ کام کر رہا ہوں لیکن عمران خان کس تاریخ کا اعلان کریں گے یہ مجھے بھی نہیں معلوم، ہم وہاں خواتین اور بچوں کو نہیں لے کر جائیں گے جبکہ سیکیورٹی میں اضافہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارت سے خط موصول ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے ہم ایک بلٹ پروف گاڑی فراہم کردیں گے اور باقی سیکیورٹی کی ذمہ داری آپ کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان ملک کے سابق، موجودہ اور مستقبل کے وزیر اعظم ہیں، ان کی سیکیورٹی کی ذمہ داری ہماری ہے جبکہ ضمانت پر رہا ہونے والوں کی سیکیورٹی کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔
اسد عمر نے تنبیہ کی کہ اگر عمران خان کو کچھ ہوتا ہے یا ان کی جان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے تو پاکستان میں کوئی شخص نہیں ہے بشمول پارٹی لیڈر کے جو ملک کے حالات کو قابو میں رکھ سکے، یہ ذمہ داری مکمل طور پر حکومت کی ہے۔
’جب لوٹا کسی کام کا نہ رہے تو چیخوں کی آوازیں تو آئیں گی‘
63 اے کے صدارتی ریفرنس کی تشریح کے فیصلے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب آپ نے لوٹے پر کروڑوں کی سرمایہ کاری کی ہو اور وہ لوٹا کسی کام کا نہ رہے تو چیخوں کی آوازیں تو آئیں گی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی کال پر ملک بھر سے لوگ نکلیں گے، پاکستان کے ہر صوبے سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ آئیں گے کہ ان کے لیے ووٹ سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ بیرونی سازش کے بعد جو حکومت ملک پر مسلط ہوئی ہے اسے قوم نے مسترد کردیا ہے، قوم میں جو بیداری پیدا ہوئی ہے اس سے اگلی نسلیں مستفید ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی فیصلے سیاستدانوں کو کرنے چاہئیں، جب وہ ایسا نہیں کرتے تو ملک کو نقصان پہنچتا ہے، الیکشن کمیشن پر ہمار اعتماد صفر ہے، انتخابات کروانے والوں پر تمام سیاسی پارٹیوں کا اعتماد لازمی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج پاکستان کی حکومت کا ذیلی ادارہ ہے، میں حکومتِ پاکستان سے بات کر رہا ہوں اور جو جو بات کر رہا ہے وہ ان کی اپنی مرضی ہے۔
ایم کیو ایم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی تو وفاق کی جانب سے کراچی کو کتنی بجلی دی جاتی تھی اور اب کتنی بجلی دی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی عدم دستیابی پر ایم کیو ایم کی جانب سے کتنے مظاہرے کیے گئے ہیں۔
بدانتظامی کی وجہ سے لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا، عمر ایوب
اس موقع پر ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ ہم نے بجلی کے شعبے کو ترقی دیتے ہوئے لوڈشیڈنگ ختم کردی تھی۔
ان کا کہنا تھا اس وقت اسلام آباد سمیت ہر شہر میں متواتر لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، بلوچستان میں 16، 16 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، خیبر پختونخوا سمیت پورے پاکستان میں لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امپورٹڈ حکومت نے کوئلہ ٹائم پر فراہم نہیں کیا، انہوں نے فیول آرڈر نہیں کیا، آئی پی پیز کو ادائیگیاں نہیں کی گئیں اور بدانتظامی کی وجہ سے ایک چلتے ہوئے سیکٹر کو برباد کردیا ہے۔
عمر ایوب نے کہا کہ پاکستان میں تین سال بعد سحری اور افطاری کے اوقات میں 99.8 فیصد فیڈر چل رہے تھے اور کوئی لوڈشیڈنگ نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور توانائی کے حالات مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔