افغانستان میں تباہ کن زلزلے میں تقریباً ایک ہزار افراد ہلاک ہوگئے جبکہ پاکستان کی سرحد سے متصل دور دراز علاقوں میں کئی گھر تباہ ہوگئے ہیں، یہ اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، ایسے میں ماہرین نے عالمی برادری پر زلزلہ زدہ ملک کی امداد کرنے پر زور دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سخت اسلامی گروپ ایک غربت زدہ ملک پر حکومت کررہا ہے جو خشک سالی، بھوک اور اقتصادی بحران سے گھرا ہوا ہے اور یہاں دہائیوں تک جاری رہنے والے تصادم کے اثرات جا بجا محسوس ہوتے ہیں۔
اب یہاں زلزلے کے خطرات نے انتظامیہ کی محدود صلاحیت ظاہر کردی ہیں جو بڑی حد تک دنیا سے الگ تھلگ ہیں اور انہیں نقد اور وسائل کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
ایسے میں کہ جب انسانی امداد جاری ہے، کابل میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ امداد روک دی گئی تھی جو افغانستان کی طویل مدتی ترقی کے لیے درکار ہوگی۔ اس کے علاوہ افغانستان کے اربوں ڈالر کے ذخائر بھی منجمد کردیے گئے تھے جس پر مغرب انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
سینٹر آن آرمڈ گروپس کے شریک ڈائریکٹر اور طالبان اور عام شہریوں کے درمیان تعلقات کے ماہر ایشلے جیکسن کا کہنا ہے کہ ’طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد لگنے والی پابندیوں اور معاشی بحران کے بعد ضروری طبی، غذائی اور تعمیر نو سے متعلق امداد کرنا خاصا مشکل ہوگیا ہے‘۔
اب تک چند پرانے ہیلی کاپٹرز بدترین متاثرہ علاقوں میں اڑان بھر رہے ہیں، زخمیوں کو باہر نکال رہے ہیں اور خوراک، ادویات فراہم کر رہے ہیں۔
ایشلے جیکسن کا کہنا تھا کہ ’سوال یہ ہے کہ کیا یہ آفت بین الاقوامی برادری ان نقصان دہ پالیسیوں پر سوال اٹھائے گی جس کی قیمت عام افغان شہریوں کو ادا کرنی پڑ رہی ہے؟
بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی برائے ایشیا کے نائب صدر عدنان جنید نے کہا کہ ’بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ ایک روڈ میپ بنائے جس کے ذریعے ترقیاتی امداد بحال کرنے کی حکمتِ عملی تیار کی جائے مرکزی بینک کو تکنیکی تعاون فراہم کیا جائے اور افغانستان کا غیر ملکی زرِ مبادلہ بحال کیا جائے‘۔
طالبان نے عالمی برادری سے امداد کی اپیل کی ہے اور کئی ممالک نے انسانی امداد کا وعدہ کیا ہے، جن میں سے کچھ پہنچ رہے ہیں جبکہ بین الاقوامی امدادی ادارے بھی مدد فراہم کر رہے ہیں۔
تاہم،تکنیکی مدد، جس میں ماہرین کی سرچ اینڈ ریسکیو ٹیمیں شامل ہیں ابھی تک نہیں بھیجی گئیں، یہ ٹیمیں بیرون ملک سے تیزی سے پرواز کر سکتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے عہدیداران اور پاکستانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ترکی اور پاکستان کی ٹیمیں تیار ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز افغانستان کے وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے ٹیلی فونک گفتگو میں زلزلے کے بعد مشکل حالات میں افغان شہریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
وزیر اعظم کے دفتر کے مطابق شہباز شریف نے جاں ہونے والوں کے لیے دعائے مغفرت جبکہ زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی۔
انہوں ملا حسن اخوند کو پاکستان کی جانب سے فراہم کی جانے والی ہنگامی امداد کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا، پاکستان کی جانب سے بھیجے جانے والی امداد میں ایمرجنسی ادویات، ٹینٹ، ترپال اور کمبل شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شدید زخمی افراد کو علاج کے لیے پاکستان بھیجنے کے لیے سرحد کے غلام خان اور انگور اڈا کے مقامات کھول دیئے گئے ہیں۔
وزیر اعظم نے مؤثر سرحدی انتظام کے ذریعے تجارت اور لوگوں کی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لیے پاکستان کے اقدامات پر بھی روشنی ڈالی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مشترکہ تعلقات کی مضبوطی کو فروغ دینے کا عہد کیا ہے جو امن، ترقی اور استحکام کا عنصر ہے۔