انسداد دہشت گردی عدالت نے صدر مملکت عارف علوی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت پی ٹی آئی کے سینئر قائدین کو پارلیمنٹ حملہ کیس سے بری کردیا۔
خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس میں بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر رکھا تھا جو آج (منگل کو) جج محمد علی وڑائچ نے سنایا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق وفاقی وزیر اسد عمر، وزیر دفاع پرویز خٹک، صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی بھی مقدمے سے بری ہونے والوں میں شامل ہیں۔
ان کے علاوہ عدالت نے پی ٹی آئی کے ناراض اراکین عبدالعلیم خان، جہانگیر خان ترین اور اعجاز چوہدری سمیت دیگر ملزمان کی مقدمہ سے بریت کی درخواستیں بھی منظور کرلی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان پہلے ہی مقدمہ سے بری ہو چکے ہیں، پروسیکیوشن نے ملزمان کی بریت کی درخواستوں پر کوئی مخالفت نہیں کی۔
دوسری جانب صدر مملکت عارف علوی نے چند روز قبل مقدمے میں صدارتی استثنیٰ نہ لینے کی درخواست دائر کی تھی جس کے بعد انہیں کیس میں ملزم قرار دے دیا گیا۔
پارلیمنٹ حملہ کیس کی ایف آئی آر 30 اگست 2014 کو تھانہ سیکریٹریٹ میں درج کی گئی تھی۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے سال 2014 میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا جو کئی ماہ جاری رہنے کے بعد آرمی پبلک اسکول حملے کے تناظر میں ختم کردیا گیا تھا۔
دھرنے کے دوران مشتعل افراد نے یکم ستمبر کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کردیا تھا، جس کی وجہ سے پی ٹی وی نیوز اور پی ٹی وی ورلڈ کی نشریات کچھ دیر کے لیے معطل ہوگئی تھیں۔
حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں تقریباً 70 افراد کے خلاف تھانہ سیکریٹریٹ میں پارلیمنٹ ہاؤس، پی ٹی وی اور سرکاری املاک پر حملوں اور کار سرکار میں مداخلت کے الزام پر انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں توڑ پھوڑ اور سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن پر حملے سیمت سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔
پولیس نے دھرنے کے دوران تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، اور رہنماؤں ڈاکٹر عارف علوی،اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، اعجاز چوہدری اور دیگر کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ لاگو کیا تھا۔
اس معاملے پر استغاثہ پرانے مؤقف کے مطابق 3 افراد ہلاک اور 26 دیگر زخمی ہوئے جبکہ 60 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ استغاثہ نے اپنے کیس کو قائم کرنے کے لیے 65 تصاویر، لاٹھی، کٹر اور دیگر اشیا کو ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کیا تھا۔
استغاثہ نے کہا تھا کہ احتجاج پُرامن نہیں تھا۔