شیریں مزاری کا اپنے بیڈروم سے ‘وائس ریکارڈر’ برآمد ہونے کا دعویٰ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی طرح ان کے بیڈروم سے وائس ریکارڈر برآمد ہوا ہے۔

اسلام آباد میں سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کل دوپہر میرے بیڈروم میں موجود کافی ٹیبل سے ملازمہ کی ٹکر کے باعث ایک ڈیوائس نیچے گری جو ٹیبل میں نصب کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پہلے ہمیں خیال آیا کہ یہ شاید یو ایس بی ہے اور اسے چیک کرانے کا فیصلہ کیا اور تحقیقات میں پتا چلا کہ یہ وائس ریکارڈر ہے اور امریکی ماڈل ہے جس کی معلومات انٹرنیٹ سے نکال لی گئی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ آئین کی دفعہ 14 (1) کی خلاف ورزی ہے، میرے بیڈروم میں کس ایجنسی نے یہ لگایا، ہمیں شک و شبہ ہے کہ کس نے یہ کام کیا لیکن اس کے پسِ پردہ مقصد کیا تھا۔

شیریں مزاری نے کہا کہ پہلے مجھے اغوا کیا، اس کیس میں رات کو وفاقی حکومت کے عہدیدار اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہمیں معلوم ہی نہیں، صوبائی حکومت نے کیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اغوا کس نے کرایا؟

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی قیادت کے خلاف ہراساں کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا، مقدمات بنائے، ہمارے موبائل فونز ٹیپ کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کل ریاست کی کوئی حد نہیں ہے، آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اور اگر کوئی بولتا ہے خاص طور پر صحافی تو اس پر جھوٹے کیسز بنادیے جاتے ہیں، مجھ پر 4 ایف آئی آرز کٹی ہوئی ہیں۔

رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ پھر میرے بیڈروم میں یہ ڈیوائس بھی لگانے کی ضرورت پڑ گئی، کیا معلومات نکالنا چاہ رہے تھے؟

میڈیا کے سامنے ڈیوائس دکھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سننے والی ڈیوائس ہے اس سے آواز ریکارڈ ہوتی ہے اور اس کی رینج بھی کافی ہے، ابھی یہ ڈیوائس ٹریس ایبل ہے جو بھی یہ کر رہا ہے اسے معلوم ہے کہ یہ ڈیوائس اس وقت کہاں موجود ہے۔

‘ڈیوائس لگانے کیلئے گھر کے ملازم کا استعمال کیا گیا’

شیریں مزاری کا کہنا تھا کوئی شرم و حیا نہیں ہے، کوئی لحاظ نہیں ہے، چادر اور چار دیواری کا کوئی تصور نہیں ہے اور یہ گھروں میں کام کرنے والے کمزور لوگوں کو استعمال کرتے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں زیادہ نہیں بتانا چاہتی کیونکہ جن لوگوں کو اس کام کے لیے استعمال کیا گیا انہیں دھمکی دی گئی تھی کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے تو بہتر ہے کہ زیادہ تفصیلات میں نہ جایا جائے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کریں گی کیونکہ ‘یہ میرا آئینی حق ہے، انہوں نے میرا پرائیویسی اور تحفظ کا حق متاثر کیا ہے’۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ‘خفیہ ایجنسیاں اس قسم کا کام کر رہی ہیں کہ بیڈروم تک آپ کی پرائیویسی محفوظ نہیں رہ سکتی تو حکومت، ریاست کو احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ جب سے امریکی سازش ہوئی ہے عوام ناراض ہیں۔’

‘ایجنسیاں قانون کے دائرے میں رہیں ورنہ قوم چپ نہیں ہوگی’

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ابھی تک یہ ایجنسیاں باز نہیں آرہیں، ہم سب کو کیا یہ قتل کریں گے کہ ہم چپ ہوجائیں؟ تو ہمیں چپ نہیں ہونا، اگر یہ ایسی حرکتیں کریں گے تو ہم ان کو بےنقاب کرتے جائیں گے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ جو بھی ہیں چاہے نیوٹرلز ہوں، آئی بی، آئی ایس آئی جو بھی ایجنسیاں ہیں آپ قانون کے دائرے میں رہیں، قانون سے باہر جائیں گے تو اب قوم چپ نہیں کرے گی، آواز اٹھائیں گے اور آپ کے خلاف کیس کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے خلاف کوئی تشدد ہوا یا کوئی حادثہ ہوا جیسے کہ پی ٹی آئی کے 3 رہنماؤں کی گاڑیاں موٹروے پر الٹی ہیں، تو قوم کو معلوم ہوگا کہ کس نے کیا کرایا ہے۔

پی ٹی آئی کے جاسوس کے الزامات

یہ پہلا موقع نہیں جب پی ٹی آئی نے ایسے الزامات لگائے ہیں، اس سے قبل پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان بارہا خبردار کرچکے ہیں کہ اگر انہیں اور ان کی پارٹی کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوا تو وہ ان کی حکومت کو ہٹانے کی مبینہ سازش میں ملوث کرداروں کے بارے میں ‘سب کچھ ظاہر کرنے’ پر مجبور ہو جائیں گے۔

گزشتہ ماہ پی ٹی آئی رہنما شہباز گل نے کہا تھا کہ بنی گالا کا ایک ملازم عمران کے بیڈ روم میں جاسوسی ڈیوائس لگاتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔

انہوں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ مشتبہ شخص پی ٹی آئی کے سربراہ کی رہائش گاہ میں گزشتہ 6 سال سے کام کر رہا تھا اور اسی وجہ سے اسے بیڈ روم میں ڈیوائس لگانے کے لیے ادائیگی کی گئی۔

شہباز گل نے الزام لگایا تھا کہ ملازم کو 50 ہزار روپے دیے گئے تھے اور اسے بتایا گیا تھا کہ ایک بار معلومات ملنا شروع ہو جائیں تو اسے مزید رقم دی جائے گی۔

اس کے چند ہفتوں بعد پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے حامیوں کو ‘نامعلوم نمبروں’ سے ‘دھمکی آمیز کالیں’ موصول ہو رہی ہیں۔

پارٹی رہنماؤں نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات سے پہلے عمران خان کو ان کی ریلیوں میں پہنچانے والے پائلٹ کو بھی ایسی ہی فون کالز موصول ہوئی تھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں