اسلام آباد ہائیکورٹ میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے اختیارات سے تجاوز کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ عدالت کی ذمہ داری ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بتائیں کہ ایف آئی اے کے بنائے گئے ایس او پیز پر کیوں عمل نہیں ہورہا؟ ایف آئی اے پیکا ایکٹ کو چھوڑ کر اب پی پی سی پر چلی گئی ہے، قانون کی یہ شقیں جنہوں نے بنائی تھیں انہوں نے تو خود انہیں استعمال کرنا چھوڑ دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر روزانہ نفرت انگیز تقاریر چل رہی ہوتی ہیں لیکن ایک آدمی بھی اس پر نہیں پکڑا۔
جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے کہا کہ سال میں 1 لاکھ 78 ہزار شکایات موصول ہوئیں، 1831 افراد گرفتار ہوئے۔ چائلڈ پورنوگرافی، نفرت انگیز تقاریر پر بھی گرفتاریاں ہوئیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ کسی کو مشتعل کرکے مذہبی جذبات ابھارنا دنیا بھرمیں ’ہیٹ اسپیچ‘ کہلاتا ہے۔ سوشل میڈیا صرف صحافیوں کے استعمال تک محدود نہیں، جن کی معاشرے میں کوئی آواز نہیں ہوتی وہ بھی سوشل میڈیا کا خود استعمال کرتے ہیں، وہ جو بات کررہے ہیں اگرغلط بھی ہو تو ان کی بات سننی تو چاہیے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کا پراسس کب مکمل ہوگا؟ ایسا تاثرنہیں جانا چاہیے کہ آپ لوگ کسی کو ٹارگٹ کررہے ہیں۔ آئندہ سماعت سے قبل پراسس مکمل کرکے بتائیں تاکہ اس کی روشنی میں فیصلہ ہو۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ایف یو جے سمیت تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی ہدایت دی جب کہ ایف آئی اے کے اختیارات سے تجاوز کے خلاف کیس کی سماعت 2 نومبر تک ملتوی کردی گئی