ریکور کی گئی رقم کرنسی نوٹ میں نہیں تھی جو گن کر دکھاتے، چیئرمین نیب

قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ ادارے نے بدعنوان عناصر سے جو 541 ارب روپے ریکور کیے وہ کرنسی نوٹ میں نہیں تھے جو گن کر دکھائے جاتے، بلکہ اس میں بلواسطہ اور بلاواسطہ ریکوریاں شامل تھیں۔

اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ گزشتہ 4 سال کے دوران نیب میں 200 انضباطی کارروائیاں کی گئیں، جن میں سے کچھ کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا گیا ہے جبکہ کچھ پر کام کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی کوشش کی کہ نیب ریکوری کے 541 ارب روپے کہاں گئے، یہ رقم کرنسی نوٹ میں نہیں تھے جو گن کر دکھائے جاتے، بلکہ اس میں بلواسطہ اور بلاواسطہ ریکوریاں شامل تھیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 4 سال میں نیب نے تاریخ کی سب سے بڑی ریکوریاں کی ہیں، نیب نے پہلی بار ان لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے جن کی جانب ماضی میں کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔

چیئرمین نیب نے بلواسطہ اور بلاواسطہ ریکوری کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نیب کو ایک ہاؤسنگ سوسائٹی نے 14 ارب روپے ادا کیے، یہ رقم کسی تجوری میں بند نہیں ہوئی بلکہ وہ ان مستحقین کے تھے جن کے کیس نیب کے پاس تھے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ 14 ارب متاثرین میں تقسیم ہوئے اور اس عمل میں ایک، ایک پیسے کا حساب رکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ کا دوسرا بڑا کیس مضاربہ کا ہے جس میں عدالتی تاریخ میں 10 ارب روپے کا جرمانہ ہوا اور یہ نیب کی کارکردگی کی وجہ سے ہوا۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ نیب کے مقدمات میں سزائیں نہیں ہوتیں جبکہ گزشتہ 4 سالوں میں ایک ہزار 194 افراد کو سزائیں ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ نیب جو ریکوری کرے وہ حکومت کے خزانے میں جمع کروائے۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی کسی پلاٹ پر سرمایہ کاری کریں تو اس حوالے سے مکمل اطمینان کریں اور متعلقہ اداروں سے اس کی چھان پھٹک کریں، میں اس موضوع پر زیادہ بات نہیں کرتا کیونکہ میں نے بھی سرمایہ کاری کی تھی اور اس کا اچھا نتیجہ نہیں نکلا۔

بیورو چیئرمین نے کہا کہ کچھ دنوں بعد آپ ذکر کریں گے کہ گوادر اور راولپنڈی کے گرد و نواح میں نیب نے کتنی زمینیں ریکور کیں، ان کی مالیت تو مذکورہ 541 ارب روپے سے کہیں زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بے شک نیب پر تنقید کی جائے لیکن تنقید شواہد کی بنیاد پر ہوتی ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ صرف برائیوں کی بات ہو، اچھائیوں کی جانب بھی دیکھنا چاہیے اور اگر آپ نیب کی اچھائیوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو متاثرین سے ضرور ملیں جن کی زندگی کچھ سوسائیٹیوں کی ظالمانہ کارکردگی کی وجہ سے برباد ہوچکی تھی اور نیب کی کارکردگی کی وجہ سے کئی ہزار افراد کو ان کی رقم واپس مل گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نیب چاہتا ہے کہ اس پر تنقید نہ ہو، تنقید بالکل ہو لیکن اسے تعمیری ہونا چاہیے، جس موضوع پر تنقید ہو اس کے بارے میں مکمل علم ہونا چاہیے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ قانونی نظام کی پیچیدگیوں کو سمجھے بغیر نیب پر تنقید کرنا درست نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں