اسلام آباد ہائی کورٹ میں مبینہ بیٹی ٹیریان کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر نااہلی کیس میں عمران خان کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ ریاست کسی سے زبردستی ڈی این اے نہیں لے سکتی۔
مبینہ بیٹی ٹیریان کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پرعمران خان نااہلی کیس کی سماعت چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں لارجر بینچ کر رہا ہے۔
اپنے دلائل میں عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ جو فنانشلی طور پر زیرکفالت ہیں ان سےمتعلق بیان حلفی میں ذکرکرنےکا کہا گیا۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے سوال کیا کہ کیاعوام کو پتہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان کےنمائندے کے فیملی ممبرز کون کون ہیں ؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ بیان حلفی آج بھی نامزدگی فارم کا حصہ ہوتا ہے۔
عمران خان کے وکیل نے زیرکفالت ہونے سے متعلق پانامہ پیپرزکیس کا حوالہ دیا اور ساتھ ہی ٹیریان سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 2 فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔
وکیل عمران خان کا کہنا تھا کہ کیلی فورنیا عدالت کا فیصلہ یک طرفہ تھا، درخوست گزار شہری کون ہیں؟ میں نے کبھی نہیں دیکھا، درخواست گزارکی جمع کرائی گئی فیصلوں کی نقول تصدیق شدہ نہ ہونےکا سوال بھی ہے، پانامہ کیس میں سوال آیا تھا کہ مریم نواز زیر کفالت ہیں یا نہیں؟ زیرکفالت پر اس کیس میں مفصل بحث ہوئی، کم عمربچوں کو زیرکفالت کی کیٹیگری میں ظاہرکرنا لازم تھا، ٹیریان کی عمرکاغذات نامزدگی کے وقت 26 سال اور اب 31 سال ہے۔
عمران خان کے وکیل نے ڈی این اے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا۔
وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ ریاست کسی سے زبردستی ڈی این اے نہیں لے سکتی، ڈی این اے دینے کے حوالے سے متاثرہ فریق کی مرضی ضروری ہوتی ہے، اس کیس میں بھی ڈی این اے اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ خود چاہے، پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں کہ آپ کسی کا زبردستی ڈی این اے لینےکا کہیں، عمران خان اس وقت پبلک آفس ہولڈر نہیں اس لیے پٹیشن قابل سماعت نہیں۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی قانون کسی کو باہر سے بلا کر نہیں کہہ سکتا کہ ڈی این اے سیمپل دو، اس ایک نکتے پریہ کیس “ڈیڈ اینڈ” پر پہنچ جاتا ہے، ڈی این اے سیمپل ریپ کیس کے متاثرہ سے بھی زبردستی نہیں لیا جاسکتا، ڈی این اے سیمپل دینا ایک رضاکارانہ کام ہوتا ہے، ڈی این اے کو شواہد کا حصہ بنانے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے میری استدعا پر دیا تھا، اس قانون کے مطابق بھی کسی سے جبراً سیمپل لینے پرپابندی ہے۔