ریاست خود ملوث ہو توتحقیقات کون کریگا؟ہائیکورٹ کے جبری گمشدگیوں پر ریمارکس

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو جبری گمشدگیوں پر موثر اقدامات اٹھانے کا حکم دے دیا، عدالت نے جبری گمشدگیوں کے ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیسز کی لسٹ اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگیوں کے کیس میں مشکل ہی یہ ہے کہ ریاست خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے گا؟ یسے واقعات سے نان سٹیٹ ایکٹرز کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ تمام کوششوں کے باوجود کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا، مدثر نارو کی فیملی کی وزیراعظم سے ملاقات بھی کرائی گئی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران کافی تعداد میں لوگ غائب ہوئے جو جبری گمشدگی میں نہیں آتے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت لوگوں کو اٹھایا گیا، اس پر کیا کہیں گے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ موجودہ حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت لوگوں کو اٹھایا گیا، اس پر کیا کہیں گے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ موجودہ حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں، یہ وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ وفاقی حکومت نے پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کسی بھی حکومت کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو زبردستی اٹھایا جائے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اب حکومت کیا کر رہی ہے؟ آئین اور قانون تو موجود ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایک نیا قانون لایا جا رہا ہے، آئین کے مطابق آرمڈ فورسز بھی وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتیں۔، کسی کو یہاں سمن کرنا مسئلے کا حل نہیں، آپ اس عدالت کو حل بتائیں۔

اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی جگہوں کی کیا صورتحال ہو گی؟ یہاں سپریم کورٹ ہے، ہائی کورٹ ہے، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور انٹیلی جنس ایجنسی کے دفاتر ہیں اور ایک ٹیسٹ کیس ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں