اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی کنول شوذیب کی بیان بازی اور متنازع پریوینشن آف الیکٹرانک میڈیا کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت ایف آئی اے کی جانب سے پڑوسی پر ایف آئی آر درج کروانے کے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر کو عدالتی معاون مقرر کردیا۔
رپورٹ کےمطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی آر کے اندراج سے متعلق کیس کی سماعت کی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کی جانب سے لازمی پروسسینگ فیس نہ جمع کروانے کی وجہ سے وفاقی حکومت کو نوٹس نہیں دیے جاسکتے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب نے عدالت کو بتایا کہ وہ خود نوٹس وصول کریں گے اور عدالت سے تحریری جواب جمع کروانے کے لیے دو ہفتے کی مہلت طلب کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آئی ایچ سی نے رکن قومی اسمبلی کے لیے سازگار حکم جاری کیا اس کے باوجود انہوں نے عدلیہ کے خلاف مہم شروع چلائی۔
کنول شوذیب کے وکیل محمد اظہر صدیق نے تجویز دی کہ عدالت اس کارروائی کو ان کیمرہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر اس کی کوریج پر پابندی عائد کرے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اس تجویز سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایک منتخب نمائندے کے لیے زیر سماعت معاملے سے متعلق حقائق کو مسخ کرنا ’بلا جواز‘ ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ رکن قومی اسمبلی نے اپنے 70 سال سے بوڑھے پڑوسی کے خلاف شکایت درج کرائی اور ایف آئی اے نے 95 ہزار سے زائد زیر التوا درخواستوں کے باوجود اس شکایت پر کارروائی کی۔
واضح رہے کہ کنول شوذیب نے ایف آئی اے کے پاس پیکا کے تحت ایف آئی آر درج کرائی تھی کیونکہ ان کے پڑوسیوں نے علاقے میں ماحولیاتی انحطاط کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی تھی جس پر مذکورہ ایف آئی آر کو آئی ایچ سی میں چیلنج کیا گیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون ساز کے لیے عدلیہ مخالف مہم شروع کرنا جائز ہے؟
گزشتہ سماعت کے بعد قانون ساز نے نہ صرف سوشل میڈیا پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر شدید تنقید کی بلکہ ان کے خلاف توہین آمیز الفاظ بھی استعمال کیے۔
دوسری جانب کنول شوذیب کے وکیل محمد اظہر صدیق نے مذکورہ کیس کو سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے درست کیس قرار دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے کہ سول اور فوجداری ہتک عزت کا مقدمہ علیحدہ علیحدہ چلایا جاسکتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر رکن قومی اسمبلی کو عدالت کے خلاف کوئی معقول شکایت ہے توعدالت اس کے ازالے کے لیے تیار ہوگی تاہم یہ اسد عمر کی موجودگی میں کیا جائے گا، عدالت نے کیس سماعت 15 روز کے لیے ملتوی کردی۔