حیدرآباد واقعہ: ‘پاکستان کی منفی تصویر’ پیش کرنے کی بھارتی کوشش پر اقلیتی رہنماؤں کا اظہار مذمت

حیدرآباد میں اقلیتی رہنماؤں نے بھارت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ شہر میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے واقعے پر پاکستان کی منفی تصویرپیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

21 اگست کو حیدرآباد میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے واقعے کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں شدید تناؤ کا ماحول پیدا ہوگیا تھا اور ہنگامہ آرائی کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی گئی تھی۔

حیدر آباد میں اتوار کو ہونے والے مظاہرے میں ایک پولیس اہلکار کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ پولیس موبائل کو بھی نقصان پہنچا تھا۔

مشتعل ہجوم قرآن پاک کی بے حرمتی کا الزام لگانے والے شخص کو پکڑنے کے لیے کاروباری مرکز کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر اندر گھس گیا تھا۔اقلیتی قائدین نے آج اکٹھے ہوکر ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے واقعے کی مذمت کی اور حیدرآباد میں امن بحال کرنے پر زور دیا۔

ان کا دعویٰ تھا کہ بھارت اس واقعے کو پاکستان کو منفی انداز میں پیش کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

ہندو برادری کے رہنما اور اقلیتوں کے لیے قومی لابنگ وفد کے رکن جی ایم پرکاش کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کے ذریعے مذہبی اقلیتوں کو پاکستان میں اچھی طرح تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے جبکہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے لیے حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

انہوں نے بھارتی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنائے اور 2020 میں ہلاک ہونے والے بھیل برادری کے 11 افراد کی تحقیقات کرے۔

ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے رہنما نے الزام لگایا کہ متاثرین کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے تعلق رکھنے والے سخت گیرہندوؤں نے زہر دیا تھا۔

جی ایم پرکاش کا کہنا تھا کہ اتوار کو اس واقعے کے بعد بھارت کا میڈیا پاکستان کا امیج خراب کررہا ہے اور پروپیگنڈا کررہا ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دراصل بھارتی حکومت مذہبی اقلیتوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے، انہوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی زیادتیوں کا سلسلہ جاری رہنے پر نوٹس لے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والے دیگر رہنماؤں میں کیتھولک ڈاؤسس سندھ سے تعلق رکھنے والے بشپ سیمسن، پاکستان ہندو کونسل (پی ایچ سی) کے رکن ایم پرکاش سنگھ، حیدرآباد امن کمیٹی کے چیئرمین غازی صلاح الدین اور چرچ آف پاکستان کے ریورنڈ ڈینیئل فیاض شامل تھے۔

تمام مقررین نے اتوار کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ذمہ داروں کو تلاش کرنے کے لیے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

بشپ سیمسن نے آنسو گیس کا استعمال کرکے مشتعل ہجوم پر قابو پانے میں پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی کاوشوں کو سراہا۔

انہوں نے واقعے کی شدید مذمت کی اورکہا کہ پاکستان مخالف قوتیں اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

بعدازاں، ریورنڈ ڈینیئل نے انہی خدشات کا اظہار کیا اور امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے مختلف مذاہب کی تعلیمات کا حوالہ دیا اور کہا کہ ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہوئے تمام عقائد کا احترام کرتے ہیں۔

سکھ برادری کے رہنما پرکاش سنگھ نے بھارتی حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے خلاف تشدد کی حوصلہ افزائی کرنے کی شدید مذمت کی۔

انہوں نے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کی مذمت کی اور کہا کہ بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف بات کرنے میں جلدی کرتا ہے لیکن وہ بھارت میں سخت گیر شدت پسندوں کے مظالم کو آسانی سے نظر انداز کرتا ہے۔

مشتبہ افراد کی ضمانت

دوسری جانب، حیدرآباد کی سیشن کورٹ نے زیر حراست 48 مشتبہ افراد کی ضمانت منظور کر لی۔

پولیس نے اتوار کو مبینہ تشدد میں ملوث لوگوں کے خلاف کنٹونمنٹ پولیس کے سب انسپکٹر عارف گل ایوان کی شکایت پر فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی تھی۔

یہ مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 353 (سرکاری ملازم کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے لیے حملہ یا مجرمانہ قوت کا استعمال)، دفعہ 147 (فساد کی سزا)، دفعہ 148 (مہلک ہتھیاروں کے ہمراہ فساد کرنا)، دفعہ 149 (غیر قانونی اسمبلی کا ہر رکن عام اعتراض کی کارروائی میں جرم کا مرتکب)، دفعہ 427 (شرارت جس سے 50 روپے کا نقصان ہوا) اور 337 ایچ (۲) (لاپرواہی سے زخمی کرنے کی سزا) کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ملزمان لوٹ مار اور ہوائی فائرنگ میں ملوث تھے جبکہ لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں اور ہتھیاروں سے لیس تھے۔

مزید بتایا گیا کہ انہوں نے نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور اہلکاروں کو ان کے سرکاری فرائض کی انجام دہی سے روکا۔

شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ اس نے اور دیگر اہلکاروں نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی۔

توہین مذہب کیس

بُندو خان ​​عباسی کے بیٹے بلال کی شکایت پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-بی اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

شکایت کنندہ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں پتا چلا تھا کہ رابی پلازہ میں کسی نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے، معاملے کا پتا لگانے کے لیے وہ پلازہ کے اندر گئے تو معلوم ہوا کہ قرآن پاک کو کسی نے جلا دیا ہے، کچھ دیر بعد ہی 8 سے 10 افراد پلازہ میں داخل ہوئے۔

بلال نے دعویٰ کیا تھا کہ مولانا امین ذکریا نے انہیں لفٹ کے قریب جلے ہوئے مقدس اوراق دکھائے، انہوں نے ایک سینیٹری ورکر سے پوچھا کہ کیا وہ اُس شخص کو پہچان سکتا ہے جس نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی لیکن جواب دینے کے بجائے وہ شخص خاموش رہا۔

بلال نے بتایا تھا کہ اُس نے سینیٹری ورکر کو پکڑا اور کچھ جلے ہوئے مقدس اوراق سمیت سینیٹری ورکر کو پولیس کے حوالے کردیا۔

صورتحال اس وقت گمبھیر شکل اختیار کر گئی تھی جب قرآن پاک کی بے حرمتی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور شہر کے تمام کاروباری اور تجارتی مراکز فوری طور پر بند کر دیے گئے جبکہ مشتعل نوجوان پلازہ کے باہر جمع ہو گئے تھے۔

جب ہجوم نے منتشر ہونے سے انکار کیا تھا تو پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کرکے مظاہرین کو منتشر کیا، تاہم چند منٹوں بعد مظاہرین پلازہ کے باہر دوبارہ جمع ہونا شروع ہوگئے۔

6 سے 7 مظاہرین کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر سیڑھی کا استعمال کرتے ہوئے میزانائن فلور پر قائم دفتر کے ذریعے پلازہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں