وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نےانتخابات از خود نوٹس کے فیصلے پر سوالات اٹھاتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔
مریم اورنگزیب نے اپنی پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے التوا کے حوالے سے کیس میں اپنا 25صحفات پر مشتمل تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیس کو 3-4 کے تناسب سے مسترد کیا گیا۔
مریم اورنگزیب نےسابق وزیراعظم عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں درخواست گزار سائفر والا تھا، جھوٹی عالمی سازش والا تھا، ملک کے خلاف سازش کرنے والا تھا، فارن ایجٹ اور گھڑی چور تھا، پہلے اس نے لانگ مارچ کا تماشہ لگایا، پھر جیل بھرو تحریک کا تماشہ لگایا، پھر عدالت سے بچنے کے لیے یہ الیکشن کا ڈرامہ لگایا، اسمبلیاں تحلیل کیں، اس کی سہولت کاری شروع ہوگئی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک مسترد شدہ درخواست کے اوپر چیف جسٹس نے تین رکنی بینچ بنایا، جب کوئی پٹیشن ہی نہیں تھی تو پھر سماعت کس چیز کی تھی، جب پٹیشن مسترد ہوگئی ہے تو پھر اس کے اوپر بینچ کیوں بنا، فیصلہ کیسے آیا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے مؤقف اپنایا کہ اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے، اس کو مسترد کرنے والے ججوں نے بھی کہا کہ اس پر فل کورٹ بنادیں تاکہ عوام کا اعتماد کورٹ پر بحال ہو، آئینی سوالات اٹھ رہے ہیں، اس لیے فل کورٹ بنادیں تاکہ عوام اس فیصلے کو تسلیم کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں الیکشن سے نہیں بھاگتیں لیکن الیکشن کے وہ فیصلے جو اپنی سیاسی حکمت عملی کو تقویت دینے کے لیے مسلط کرائے جائیں، وہ نا قابل قبول ہیں، یہ الیکشن کا معاملہ نہیں رہا، یہ اب اس بینچ فکسنگ کا معاملہ ہے، اس عدالتی سہولت کار کا معاملہ ہے جس پر آج جسٹس اطہر من اللہ نے سوالات اٹھائے ہیں۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ عدالتی کارروائی جو کسی سیاسی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہو، اس کی اجازت نہیں ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس کے دو پہلو ہیں، جب عدالتی پہلو سیاست پر اثر انداز ہو، جب عدالتی کارروائی متنازع ہوجائے، سپریم کورٹ کا اپنا اکثریتی بینچ اس کو نہ مانے، اس فیصلے کو عوام کیسے مانیں، کیسے تسلیم کرلیا جائے کہ وہ فیصلہ آئین کے مطابق صاف و شفاف ہے؟
انہوں نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ پہلے ہی مسترد شدہ درخواست تھی، اس پر بینچ نہیں بن سکتا تھا، اس کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ پھر سوال یہ اٹھتے ہیں کہ عدالتی سہولت کاری کیوں، کیوں جھوٹ بولا گیا کہ ججز نے اپنے آپ کو کیس سے علیحدہ کرلیا، کیوں اس جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے 3 ججز کا متنازع بینچ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آج عمرانداری پر آئین کی فتح ہوئی ہے، سچ بولنے والے ججز نے اپنی ججمنٹ اور کورٹ آڈر کے ذریعے اس سہولت کاری کو بے نقاب کیا ہے۔