کئی ہفتوں کے مذاکرت کے بعد بالآخر حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) دونوں نے عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔
سوموار کو وزرات اطلاعات اور ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکرات اور جنگ بندی کے اعلان سامنے آنے کے بعد منگل کو تحریک طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور ولی محسود کی جانب سے گروہ سے منسلک جنگجوؤں کو ایک خط بھی لکھا گیا ہے جس میں انہیں ایک ماہ کے لیے تمام کارروائیاں روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔
گو یہ جنگجو گروہ اور پاکستانی حکومت کے درمیان پہلے مذاکرات یا جنگ بندی نہیں۔ تاہم یہ مذاکرات اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ اس میں ایک غیر ملکی حکومت میزبانی کر رہی ہے اور مذاکرات بھی افغانستان میں ہو رہے ہیں۔منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ’افغانستان کے حکام نے بھی ہمیں کہا ہے کہ ہم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کریں اور اس مسئلے کو حل کریں۔ افغانستان کی نئی اتھارٹیز چاہتی ہیں کہ پاکستان میں امن قائم ہو اور امن بات چیت ہی سے ممکن ہوسکتا ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے افغان امور کے ماہرین نے ماضی کی ناکامیوں کی مثال دیتے ہوئے مذاکرات کے حوالے سے خدشات کا اظہار بھی کیا ہے تو دوسری طرف اس امید کا بھی اظہار کیا ہے کہ افغان طالبان کی ثالثی کے باعث شاید اس بار نتیجہ مثبت آئے۔
یاد رہے کہ ماضی میں کئی بار پاکستانی حکام کی ٹی ٹی پی سے بات چیت ہوئی اور امن معاہدے بھی ہوئے مگر وہ ناکام رہے۔افغانستان امور کے ماہر اور سابق سفیر ایاز وزیر کا کہنا تھا کہ ’ماضی اور اب میں ایک فرق یہ ہے کہ جب وہ شکئی، سراروغہ اور سوات اور قبائلی علاقوں میں معاہدے کیے گئے تھے تو اس وقت افغانستان جل رہا تھا مگر اب افغانستان امن کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہو سکتا ہے اس بار بہتری کی امید نکل آئے۔‘
تاہم اس کا انحصار اس بار پر ہے کہ کون مذاکرات کر رہا ہے۔ ’لگ یہی رہا ہے کہ (پاکستان کی طرف سے) وہی مذاکرات کر رہے ہیں جو ہمیشہ کرتے ہیں۔