حکومت نے رواں سال کے اختتام تک توانائی نرخوں میں مسلسل اضافے کا عندیہ دے دیا

حکومت نے کہا ہے کہ ‘عمران خان کی جانب سے بچھائی گئی بارودی سرنگوں’ کی وجہ سے آئندہ تین سے چار ماہ تک توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اور پھر رواں سال نومبر سے دسمبر میں کمی کا رجحان شروع ہو جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق علیحدہ علیحدہ نیوز کانفرنسز سے خطاب کرتے ہوئے توانائی کے وزرا خرم دستگیر اور مصدق ملک نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے قیمتوں کے حوالے سے قانونی مجبوریوں کے ساتھ ہاتھ باندھ دیے تھے اور درست اصلاحات مکمل ہونے سے پہلے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

دونوں وزرا نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت ریگولیٹرز کی جانب سے ٹیرف کے تعین کے بعد بننے والی بجلی اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ میں تاخیر کرتی رہی اور جانے سے پہلے قوانین میں تبدیلی کردی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئی حکومت کے پاس بیک لاگ کو ختم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے۔

وزرا نے کہا کہ اس کے علاوہ انہوں نے اس وقت ایل این جی، کوئلے اور فرنس آئل کی درآمد کا بندوبست نہیں کیا جب ان کی قیمتیں سب سے کم تھیں اور عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی قرض دہندگان کووڈ شاک کو برقرار رکھنے کے لیے سستے اور غیر مشروط قرضے فراہم کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کے آنے تک نہ صرف ایندھن کی قیمتوں میں 300 سے 400 فیصد اضافہ ہو چکا تھا بلکہ یہ اشیا مارکیٹ میں کسی بھی قیمت پر دستیاب نہیں تھیں، انہوں (پی ٹی آئی) نے ہمارے لیے جال بچھا دیا تھا۔

وزرا نے کہا کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) باقاعدگی سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کا تعین کررہی تھی لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے تین سال سے زائد عرصے سے اسے نوٹیفائی نہیں کیا لیکن اپنی مدت کے آخری ایام میں اس قانون کو تبدیل کر دیا جس کے تحت آنے والی حکومت اوگرا کی متعینہ قیمت کو روک نہیں سکتی جو 40 روز کے بعد خود بخود نوٹیفائی ہو جاتی ہے۔

وزرا کا کہنا تھا کہ انہیں (پی ٹی آئی حکومت) کو گیس کی قیمتوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کے قانونی اختیارات حاصل تھے لیکن انہوں نے یہ اختیار بعد میں آنے والی حکومتوں کے دائرہ اختیار سے واپس لے لیا، یہ ایک اور جال تھا۔

وزرا کے مطابق ممکنہ طور پر ایک کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو اس بات کی تحقیقات کرے گا کہ حالات اس نہج پر کیوں پہنچے اور کیا اقدامات کیے جائیں تاکہ مستقبل میں ایسی تباہی نہ دہرائی جائے۔

نیز حکومت رہائشی شعبے میں 5,000-6,000 میگاواٹ کی حد تک شمسی توانائی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو یقینی بنانے اور لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اگلے دو مہینوں میں اسکیمیں لے کر آئے گی۔

توانائی کے وزیر خرم دستگیر خان نے کہا کہ بجلی کے نرخوں میں ری بیسنگ آخری بار 17 ماہ قبل کی گئی تھی، اس عرصے کے دوران افراط زر کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوا لیکن اس کا اثر بنیادی ٹیرف میں ظاہر نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ایک تحقیقاتی کمیشن اس بات کا جائزہ لے گا کہ ریگولیٹر پر کس طرح دباؤ ڈالا گیا کہ سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ میں اتنی دیر تک تاخیر ہوئی جو اب 7.90 روپے فی یونٹ اضافے تک پہنچ چکی ہے۔

خرم دستگیر خان نے کہا کہ ان کی وزارت نے وفاقی کابینہ سے کہا ہے کہ وہ اس ایڈجسٹمنٹ کو اب سے اکتوبر کے درمیان تین قسطوں میں صارفین تک پہنچائے تاہم کابینہ نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ اسے سب سے کم سلیب والے صارفین کے تحفظ کے لیے سبسڈی کو بھی منظور کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’یہ (ٹیرف میں اضافہ) آئندہ تین مہینوں میں کیا جائے گا اور توقع ہے کہ اس کے بعد نومبر سے دسمبر میں بجلی کے نرخوں میں کمی آنا شروع ہو جائے گی‘۔

وزیر نے کہا کہ جمعرات کو ملک کی بجلی کی طلب 30,000 میگاواٹ سے تجاوز کر گئی تھی جبکہ تقریباً 21,842 میگاواٹ بجلی فراہم کی جارہی تھی تھی جبکہ اقتصادی طور پر قابل انتظام صلاحیت 25,000 میگاواٹ سے زیادہ نہیں تھی، انہوں نے کہا کہ تقسیم کار کمپنیوں کو جمعرات کو تقریباً 6000 میگاواٹ کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔

خرم دستگیر نے کہا کہ گھریلو صارفین کے لیے ناگزیر لوڈشیڈنگ کے باوجود ہزاروں پاکستانیوں کے روزگار کے تحفظ کے لیے صنعتی شعبے کو مسلسل اور بلا تعطل بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قلت تین عوامل کی وجہ سے تھی جن میں عمران کی سی پیک سے دشمنی، نیب کا غلط استعمال، اپریل میں گرمی کی بے مثال لہر اور بین الاقوامی مارکیٹ میں ایندھن (کوئلہ، گیس اور تیل) کی قیمتوں میں بے لگام اضافہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سال بجلی کی پیداوار میں 20 فیصد اضافہ ہونے کے باوجود مذکورہ مدت کے دوران گزشتہ سال کے مقابلے میں بجلی کی طلب میں 30 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں