جو تیری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

ظفر مرزا اور تانیہ ایدروس کے استعفے دونوں معاونین خصوصی کی دوہری شہریت کا شاخسانہ ہیں یا مالی معاملات میں گڑ بڑ کا نتیجہ؟ فی الحال وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے، البتہ عوامی تنقید اور دبائو پر استعفیٰ کی روایت پاکستانی سیاست میں ایک نئی روایت ہے۔ کہنے کو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے دونوں کو معاونین خصوصی کا منصب سونپتے وقت دوہری شہریت کے مضمرات پر غور کیوں نہ کیا؟ آخر اپنی ٹیم کے ارکان کا انتخاب کرنے سے پہلے مناسب چھان پھٹک اور خوب غورو خوض کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کرتے؟ لیکن غلطی کا ادراک اور ازالہ بھی تو ہر کسی کے بس کی بات نہیں، وزیر اعظم کے معاونین خصوصی اور مشیروں کی دوہری شہریت پر تنقید ہوئی تو ماضی کے حکمرانوں کی طرح دلائل تراشنے اور دستور پاکستان کی متعلقہ شقوں میں پناہ لینے کے بجائے سیدھے سبھائو تلافی مافات کی سعی ہوئی دو چلے گئے، اللہ نے چاہا تو باقی بھی اسی انجام سے دوچار ہوں گے ع

بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے

دوہری شہریت کے مالک تارکین وطن کی حب الوطنی پر کسی کو شک ہے نہ قومی خدمت کے جذبے سے انکار۔ دستور پاکستان میں بھی صرف منتخب عوامی نمائندوں کے لئے دوہری شہریت کی ممانعت ہے بات اُصولی اور اخلاقی ہے۔ دوہری شہریت کے مالک افراد کی وفاداری منقسم ہے اور جو راستہ وفاقی کابینہ کے منتخب ارکان کے لئے بند ہے وہ کسی غیر منتخب مشیر اور معاون خصوصی کے لئے کھلا رکھنا خطرناک ہے۔ غیر معمولی حالات میں کسی ایسے شعبے میں مشاورت کے لئے وزیر اعظم دوہری شہریت کے حامل بلکہ خالصتاً غیر ملکی شہری کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں جس میں پاکستانی شہری تہی دست اور تہی دامن ہیں، ویسے ایک نیو کلیر ریاست کو ہونا نہیں چاہیے کہ یہ اس کی عزت اور وقار کے منافی ہے لیکن مالیات، صحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اوورسیز پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے شعبے دوہری شہریت کے حامل افراد کے حوالے کرنا ان ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور تجربہ کار پاکستانی شہریوں سے زیادتی اور مقامی جوہر قابل کی حق تلفی ہے جو اپنی زندگیاں وطن عزیز کے لئے وقف کر چکے اور جنہیں غیر ملکی ملازمتوں میں کبھی کشش محسوس ہوئی نہ امریکہ، برطانیہ کینیڈا کی شہریت کا بخار چڑھا اور نہ انہوں نے ترک وطن کے بارے میں سوچا۔ بیرون ملک جا کر رزق حلال کمانا جرم ہے نہ دوہری شہریت کی بنا پر کسی کو ملک کی خدمت سے روکا جا سکتا ہے لیکن قومی خدمت اعلیٰ ترین مناصب حاصل کیے بغیر ممکن ہے اور قومی خدمت کے لئے کسی اعلیٰ منصب کا متقاضی شخص، غیر ملکی شہریت کی قربانی دے کر وطن عزیز کے ساتھ اخلاص ثابت ضرور کرے ع

گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں

بدقسمتی سے ماضی میں اہل وطن نے دوہری شہریت کے مالک جس شخص کو قومی خدمت کا موقع دیا، اس نے اعلیٰ ترین منصب سے علیحدہ ہونے کے بعد پاکستان میں رہنا مناسب سمجھا نہ اس مٹی میں دفن ہونا پسند کیا، ایوب خاں کے وزیر خزانہ محمد شعیب کابینہ سے الگ ہوتے ہی بیرون ملک سدھار گئے، معین قریشی کو دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی یا بالفاظ دگر میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اتفاق رائے سے ملک کا نگران وزیر اعظم بنایا، انتخابات اور انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہوتے ہی موصوف امریکہ واپس چلے گئے، یہی حال شوکت عزیز کا ہے جو ان دنوں پاکستان سے کمائی دولت کے بل بوتے پر امریکہ میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ان لوگوں نے پاکستان میں ملنے والی منصبی عزت اور مراعات کو اپنا پروفائل بہتر بنانے کے لئے استعمال کیا مگر اسے رہنے کے قابل نہ سمجھا، یہ پاکستان سے ان کی وابستگی اور وفاداری کا ثبوت ہے اسی بنا پر جب بھی کسی وزیر مشیر، بیورو کریٹ اور معاون خصوصی کی دوہری شہریت منظر عام پر آئی عوام کے ماتھے پر بل پڑے اور ان کی مناصب سے علیحدگی کا جائز مطالبہ ہوا۔ عمران خان ماضی میں دوہری شہریت کے حامل افراد کی مخالفت کرتے رہے بنا بریں ان کے مشیروں اور معاونین خصوصی کی دوہری شہریت پر زیادہ تنقید ہوئی اور خدا کا شکر ہے کہ حکومت نے اس دبائو کو محسوس کیا اب ذاتی پسند ناپسند کی گنجائش نہیں، ظفر مرزا اور تانیہ ایدروس کے بعد زلفی بخاری، ندیم بابر اور دوہری شہریت کے دیگر معاونین خصوصی کو بھی اپنے مناصب چھوڑنے پڑیں گے کہ دوہرا معیار چل سکتا ہے نہ امتیازی پالیسی کی گنجائش۔

دوہری شہریت کے حامل وزیر اعظم کے مشیروں اور معاونین خصوصی پر تنقید ان خواتین و حضرات نے بھی کی جو کل تک اپنے لیڈران کرام کے غیر ملکی اقاموں بلکہ معمولی نوعیت کی ملازمتوں کا دفاع کرنے میں پیش پیش تھے، یہ کس قدر شرم کا مقام ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کسی دوسرے ملک کا اقامہ ہولڈر اور کسی نجی کمپنی کا معمولی ملازم ہو، جب عدالت عظمیٰ نے ان وارداتوں کا نوٹس لیا تو شرم سے ڈوب مرنے کے بجائے یہ عزت مآب اعلیٰ عدلیہ پر چڑھ دوڑے اور اب بھی انہی کے کارندے دوہری شہریت کے حامل مشیروں، معاونین خصوصی پر برہم ہیں، ظفر مرزا اور تانیہ ایدروس کی خصوصی مناصب سے سبکدوشی کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک طرف انہیں استعفیٰ دینے کا باعزت راستہ فراہم کیا گیا دوسری طرف وزیر اعظم ہائوس نے میڈیا کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ یہ دونوں معاونین خصوصی رضا کارانہ طور پر مستعفی نہیں ہوئے بلکہ وزیر اعظم نے ان سے استعفیٰ طلب کیا تھا، جو لوگ سال ڈیڑھ سال سے اعلیٰ منصب پر کام کرتے رہے جن کے حسن کارکردگی کی تحسین ایک سے زائد بار وزیر اعظم نے کی ان کی باوقار رخصتی سے گریز میرے خیال میں حکمرانوں کا پھوہڑ پن ہے۔ اخلاقی طور پر ایسے لوگوں کو وزیر اعظم عمران خان خود بلا کر انہیں منصب سے علیحدگی کا سبب بتائیں اگر بالفرض اسے کسر شان سمجھتے یا بوجوہ علیحدگی کی وجوہات خود بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتے تو مشرقی روایات کے مطابق اپنے سابقہ رفیق کار کو الوداعی ملاقات کا شرف ضرور بخشیں کہ وہ بے چارہ وزیر اعظم ہائوس سے اچھی یادیں سمیٹ کر روانہ ہو۔

جنرل ضیاء الحق اور محمد خان جونیجو میں اختلافات اس قدر بڑھے کہ فوجی حکمران نے آٹھویں آئینی ترمیم کے اختیارات بروئے کار لا کر برطرف کر دیا، جونیجو صاحب برطرفی کے بعد سندھڑی روانہ ہونے لگے تو صدر نے غالباً ایوان صدر یا آرمی ہائوس میں ان کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کیا اور موصوف پورے احترام کے ساتھ خصوصی طیارے میں آبائی گائوں روانہ ہوئے، دیگر حکمرانوں کا بھی یہی وطیرہ رہا مگر موجودہ حکومت کے دور میں اعلیٰ مناصب سے الگ ہونے والوں سے یہ مروّت برتنے کا رواج نہیں ع

جو تیری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

عمران خان کی درخواست پر غیر ملکی ملازمتیں چھوڑ کر پاکستان آنے اور مناصب سنبھالنے والے تو شاید پشیماں بھی ہوں، ایک اچھا کام بُرے طریقے سے کرنے کی یہ روایت معلوم نہیں کب ختم ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں