تحریر: جاوید صدیق——دارالحکومت سے——یہ انتشار ہمیں کہاں لے جائےگا؟

ہم اس وقت جس سیاسی اور معاشی انتشار کےبھنور میں پھنسے ہوئے ہیں وہ ہمیں روز ایک نئی مصیبت سے دوچار کررہا ہے۔ گذشتہ پچھہترسال کی غلطیوں، خودغرضیوں ذاتی اور گروہی مفادات کی لڑائی باعث ملک کا بیڑہ غرق کرایا گیا ہے۔جو کچھ آج ہورہا ہ اس کے بیج کئی سال قبل بو دیئے گئے تھے۔ملک میں چار مرتبہ مارشل لاء لگایاگیا اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ حالات بہتر ہوجائیں گے لیکن ہر مارشل لاء کے خاتمہ پر ملک مزید ابتری میں پھنستا چلا گیا۔ فوج اقتدار میں اگرنہیں بھی تھی تو قومی سلامتی اور استحکام کے نام وہ بلاواسطہ اقتدار میں شریک رہی۔ اس کے باوجود پاکستان معاشی طور پر مستحکم نہ ہوپایا اور نہ ہی سیاسی استحکام آیا۔ غیر ملکی قرضوں اور امداد سے ملک کو چلایا جاتا رہا۔
دنیا بھر کے ماہرین اور پاکستان کے ہمدردہمیں مشورہ دیتے رہے کہ ہم اپنے سیاسی اداروں اور معیشت کی اصلاح کے لئے اقدامات اُٹھائیں لیکن ہم نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔مقتدر حلقے اورسیاسی لیڈر ذاتی اور گروہی مفادات کے لئے کام کرتے رہے۔ پچھہترسال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے۔ اس عرصہ میں دنیا کے وہ ممالک جو معاشی طور پر کمزور تھے اور بیرونی امداد سے چل رہے تھے وہ سب اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے۔
ویت نام کو امریکہ نے بمباری کر کے نیست ونابود کرایا تھا لیکن یہ چھوٹا سا ملک اب دنیا میں مثالی ترقی کررہا ہے۔ بنگلہ دیش کی ہمارے دانشور اورمعیشت دان اکثرمثالیں دیتے ہیں کہ مغربی پاکستان سے الگ ہوکر کس طرح اس نے شاندار معاشی ترقی کی ہے۔ کئی دیگر ممالک بھی جو پچاس سال پہلے معاشی وسیاسی انتشار کا شکار تھےاب سیاسی اور معاشی اعتبار سے قابل رشک حدتک مستحکم ہوگئے ہیں۔
ہماری حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ہم صرف باتیں اور تماشہ دیکھتے رہ گئے اور ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ملک اور قومیں ہمیں کہیں پیچھے چھوڑ کرآگے چلے گئے۔دنیا کی قومیں غلطیوں سے سیکھتی ہیں اور اپنی اصلاح کرتی ہیں ہم اس صلاحیت سے محروم ہیں۔
اس وقت ہمیں جس معاشی بحران کا سامنا ہےاس کا جو حل ہمارے حکمران اورمقتدر طبقے سوچ رہے ہیں وہ شاید ہمارے کام نہ آسکے۔ ہم آئی ۔ایم۔ ایف کے ایک یا دو ارب ڈالر حاصل کرنے کے لئے مرے جارہے ہیں۔ پٹرول ، بجلی، گیس مہنگی کررہے ہیں پھر بھی آئی۔ایم۔ایف ہم سے خوش نہیں۔ اس ادارے کی شرائط اور سخت ہوتی جارہی ہیں موجودہ حکمران امریکہ کے ترلے کررہے ہیں کہ وہ آئی۔ایم۔ایف کو رام کرے تاکہ ہمیں کچھ مل جائے۔
دریں اثناء چین، ترک اور دیگر ممالک کی بھی منتیں ہورہی ہیں کہ وہ ہمیں کسی طرح اس بحران سے نکالیں لیکن وہ کئی عشروں سے ہمیں مدد دیتے دیتےتنگ آچکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری حالت اس فقیر جیسی ہے جو مانگی ہوئی رقم عیاشیوں پر اُڑادیتا ہے اور اپنے آپ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔
سیاسی اعتبار سے ہمارے لیڈر اآس میں دست وگریباں ہورہے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو کہ گلہ ہے کہ انہیں پوری اننگ کھیلنے سے پہلے ہی ایک سازش کے ذریعہ نکال کر باہر کردیا گیا ہے اور ان کی جگہ ان لوگوں کو اقتدار دیا گیا ہے جن پر ملک لوٹنے اور اسے کنگال کرنے کے الزامات میں مقدمات چل رہے تھے۔ عمران خان فوری طور پر نئے الیکشن کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن ان کے مطالبے پرکوئی کان نہیں دھر رہا۔اُلٹا کوشش ہورہی ہے کہ موجودہ حکومت کو اگلے سال تک برقراررکھا جائے۔ معیشت کو بہتر بنانے کے وعدے محض ایک سیراب اور دھوکہ ہیں۔ عالمی اقتصادی نظام خردایک شدید بحران کا شکار ہے۔ تیل اور غذائی اجناس کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں۔ہمیں “بیل آؤٹ ” کرنے کون آئے گا؟
اپنے مسائل ہمیں خود حل کرنا ہیں لیکن اس کے لئے ایک عزم اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں عناصر کہیں نہیں دکھائی دیتے۔ سیاسی لڑائی شدید ہورہی ہے۔ سازشیں عروج پر ہیں کوئی ایسی قدآور شخصیت یا ادارہ نہیں جو سب کو ایک میز پر بٹھائے اور مسئلہ کا حل تلاش کرے۔سب تماشہ دیکھ رہے ہیں اور انتشار بڑھتا جارہا ہے خدا خیر کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں