تحریر: جاوید صدیق——دارالحکومت سے——اگلےچھ ماہ

تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں بننے والی حکومت نے اپنا بجٹ پیش کردیا ہے۔ اس بجٹ نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ نہ صرف پٹرول اور ڈیزل مہنگے ہوئے ہیں بلکہ اشیاءضروریات زندگی خاص طور پر کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ عام شہری کا مہنگائی کے ہاتھوں دم نکل رہا ہے۔
معاملہ یہیں پر نہیں رک رہا۔ وزیرخزانہ ہر روز یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ پٹرول کی قیمتیں مزید بڑھانا ہوں گی۔ پٹرول کی قیمت بڑھی تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ لوگ اس بارے میں سوچ کرہی کانپ رہے ہیں۔ کھانے کے تیل کی قیمتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں یہ تیل تو اب لوگوں کا کھانے لگ پڑا ہے۔ سبزیاں دالیں، کچن میں استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتیں بھی آسمان تک جاپہنچی ہیں۔
اس مرتبہ بدبختی سے گندم کی پیداوار بھی کم ہوئی ہے جس کی وجہ سے تیس لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوانا پڑے گی۔ “مشکل فیصلے” لئے جارہے ہیں اور لئے جائیں گے اور مزید لئے جائیں گے۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو مزید عذاب سہنا پڑے گا۔
پی ۔ڈی۔ ایم حکومت یہ دلیل کہ سب کچھ عمران خان کا کیا دھرا ہے اب لوگ ماننے کے لئے تیار نہیں۔لوگ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اوران کی ٹیم کو موجودہ حکمران نااہلوں کا ٹولہ قراردیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ معاشی نظام کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے تھے انہوں نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ اب تو بہت اہل اور لائق لوگ اقتدار میں ہیں تو مہنگائی پر قابو پا کردکھائیں۔ شہباز شریف جنہیں ان کی جماعت اور ان کے حامی بہت متحرک اور لائق قراردیتے تھے وہ بے بس نظرآرہے ہیں۔
مہنگائی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ امریکہ، جاپان، برطانیہ، یورپ کے کئی ممالک حتیٰ کہ مشرق وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ممالک بھی مہنگائی کی گرفت میں آگئے ہیں۔ ان ملکوں میں بھی تیل مہنگا ہورہا ہے۔
اوپر سے روس اور یوکرین کی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اس جنگ کے خاتمہ کی ساری سفارتی کوششیں اب تک رائیگاں گئی ہے۔ روس اور یوکرین تیل اور گیس کے علاوہ گندم کی فراہمی میں بھی سرفہرست تھے۔یوکرین کے صدر کہتے ہیں کہ یوکرین لاکھوں ٹن گندم بلیک سی کی بندرگاہوں پر پڑی پڑی خراب ہورہی ہے۔روس اس گندم کو آگے بھیجنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ان حالات میں پاکستان میں مہنگائی کہاں سے ختم ہوگی یہ اور بڑھے گی۔
دوسری طرف موجودہ حکومت کی اخلاقی بنیاد پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ وزیراعظم اوران کے صاحبزادے دونوں پر منی لانڈرنگ کے کیس چل رہے ہیں۔ کابینہ کے ارکان کی اکثریت عدالتوں سے ضمانت پر ہے۔یہ بات بھی حکومت کی اخلاقی پوزیشن کو کمزوربنارہی ہے۔
عمران خان جو اقتدار میں سخت بحران میں پھنس گئے تھے۔ بنی گالہ میں بیٹھے حکومت کی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں اور کوشش کررہے ہیں یہ کوشش تماشہ بینی رہے۔ کوئی معجزہ یا غیر معمولی بیرونی امداد ہی اس وقت ملک کو موجودہ بحران سے نکال سکتی ہے ایسی امداد کے امکانات کم ہیں۔دوست ممالک جن سے مدد کی توقع تھی وہ خود پریشان ہیں۔ عمران خان الزام لگاتے ہیں کہ یہ حکومت امریکہ کی سازش سے بنی ہے۔ لیکن نظریہ آرہا ہے کہ امریکہ بھی اس حکومت کو بحران سے بچانے کے لئے کچھ نہیں کررہا۔ اگلے چھ ماہ اس حکومت کے لئے سخت پریشانی کے ہیں۔حکمرانوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کس طرح ان حالات سے نکلیں گے اور اوپر سے الیکشن بھی سرپر کھڑے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں