بیلاروس کی سرحد سے عراقی مہاجرین کی واپسی، یورپی یونین میں داخل ہونے کی خواہش ادھوری رہ گئی

بیلا روس اور پولینڈ کی سرحد پر یورپی یونین میں داخل ہونے کی کوشش میں ہزاروں مہاجرین جمع ہیں۔ ان میں خاص طور پر عراقی، شامی، یمنی اور افغانی مہاجرین شامل ہیں۔ اب عراقی مہاجرین کی واپسی شروع ہو گئی ہے۔نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق بیلاروس کی سرحد پر موجود سینکڑوں عراقی مہاجرین نے اپنے ملک کی واپسی کی ٹکٹیں بُک کرانا شروع کر دی ہیں۔ سرحد پر شدید سردی اور کھلے آسمان کے نیچے مسلسل قیام انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ منسک سے اربیل کی ایک پرواز عراقی اور کرد مہاجرین کو لے کر روانہ ہو چکی ہے۔بیلاروس کے علاوہ یہ مہاجرین بالٹک ریاستوں لیتھوینیا اور لیٹویا کی سرحدوں پر بھی جمع ہیں اور یورپی یونین میں داخلے کی ان کی خواہش سخت سکیورٹی کی وجہ سے ابھی تک ادھوری ہے۔

اب تک ان مہاجرین میں سے نو افراد شدید موسم کی وجہ سے اپنی زندگی ہار چکے ہیں۔ کئی ملکوں سے یورپی یونین کے دباؤ کے نتیجے میں ہوائی کمپنیوں نے بیلاروس کے دارالحکومکت منسک کے لیے پروازیں بھی معطل کر دی ہیں۔

عراقی اور کرد مہاجرین کی واپسی

بیلاروس اور پولینڈ کی سرحد پر ہزاروں مہاجرین میں بےشمار عراقی مہاجرین موجود ہیں۔ ان میں سے کم از کم چار سو تیس عراقی و کرد مہاجرین  منسک سے اربیل کی ایک پرواز میں واپس روانہ ہو گئے ہیں۔ واپس جانے والوں میں کرد شہریوں کے علاوہ کئی عراقی بھی ہیں، جو اربیل پہنچ کر آگے بغداد کی جانب روانہ ہو جائیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ بیلاروس میں قریب چار ہزار عراقی مہاجرین ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور ان میں زیادہ تر کا تعلق کرد علاقوں سے ہے۔واپس جانے والے ایک تیس سالہ عراقی کرد نے نام مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ وہ بیلاروس سے لیتھوینیا اور پولینڈ میں داخل ہونے کی کم از کم آٹھ کوششیں کر چکا ہے لیکن ہر مرتبہ ناکامی ہوئی۔ یہ عراقی کرد اپنی بیوی کے ہمراہ آیا تھا۔ اس مہاجر نے روئٹرز کو بتایا کہ اس کی بیوی دوبارہ ایسی کوشش کرنے پر قطعی طور پر راضی نہیں کیونکہ اس نے کئی دہشت ناک مناظر دیکھ لیے ہیں۔

مہاجرین کی خواہش ادھوری رہی

سینکڑوں مہاجرین کی واپسی کی بنیادی وجہ سرحد پر پولستانی سرحدی محافظین اور دوسرے سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی ہے۔ ان کی وجہ سے سرحد عبور کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اس سرحدی حفاظت کے لیے پولینڈ کو یورپی یونین کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے۔واپس جانے والے مہاجرین نے انتہائی نامساعد حالات اور مشکل موسم کو بھی واپسی کی ایک اہم  وجہ قرار دیا۔ ان کے مطابق اتنی سخت سردی میں رات دن ٹھٹھرتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شدید سردی میں جنگل میں گزربسر بتدریج ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور جلد ہی بہت سارے دوسرے مہاجرین بھی واپسی کی راہ اپنا سکتے ہیں کیونکہ بہت ساروں کے ساتھ چھوٹے بچے بھی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں