بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی نے انسانی حقوق کے معروف کشمیری کارکن خرم پرویز کو ‘دہشت گردی کی فنڈنگ’ کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ انہیں دہلی منتقل کیا جا رہا ہے۔
بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے خرم پرویز کی گرفتاری اور سرینگر کے امیراکدل میں واقع ان کے دفتر اور سونا وار میں رہائش گاہ پر چھاپے مارنے کے حوالے سے فی الحال کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ اس سے قبل ایجنسی نے ان کے گھر اور دفتر پر چھاپے مار کر متعدد اشیاء ضبط کر لیں تھیں۔
خرم پرویز کی اہلیہ ثمینہ کا تاہم کہنا ہے کہ این آئی اے نے خرم پرویز کی گرفتاری سے متعلق انہیں ایک میمو دیا اور بتایا کہ انہیں دہلی منتقل کیا جا رہا ہے۔ ثمینہ نے مزید بتایا کہ پیر کے روز این آئی اے کی ٹیم نے پولیس اور نیم فوجی دستے سی آر پی ایف کے اہلکاروں کے ہمراہ ان کی رہائش گاہ اور خرم پرویز کے دفتر پر چھاپے مارے۔ ٹیم نے دونوں جگہوں پر باریک بینی سے تلاشی لی اور وہاں سے ان کے لیپ ٹاپ، دیگر الیکٹرانک اشیاء، موبائل فون کے علاوہ بعض کتابیں اور انسانی حقوق سے متعلق تیار کی گئی رپورٹیں اپنی تحویل میں لے لیں۔ ان کے دفتر کی چودہ گھنٹے سے زیادہ تلاشی لی گئی۔
کون ہیں خرم پرویز؟
خرم پرویز انسانی حقوق کے عالمی شہرت یافتہ کارکن ہیں، جنہیں اب تک کئی بین الاقوامی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ 42 سالہ خرم پرویز جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی تنظیم ‘جموں کشمیر کوالیشن آف سول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس)’ کے پروگرام کوآرڈینیٹر اور ‘ایشیئن فیڈریشن اگینسٹ ان والینٹری ڈس اپیرینسیز (اے ایف اے ڈی)’ کے چیئرپرسن بھی ہیں۔
گوکہ این آئی اے نے ابھی یہ نہیں بتایا کہ خرم پرویز کو کن دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم انسانی حقوق کی اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ میری لالر نے ایک ٹوئٹ کر کے بتایا کہ خرم پرویز کو انسداد دہشت گردی کے سیاہ قانون یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
میری لالر نے ایک ٹوئٹ کر کے بتایا،” مجھے کشمیر سے خرم پرویز کی گرفتاری کی تشویش ناک خبریں مل رہی ہیں۔ حکام ان کے خلاف دہشت گردی سے متعلق الزامات عائد کررہے ہیں۔”
اقوام متحدہ کی نمائندہ میری لالر نے مزید کہا،”وہ کوئی دہشت گرد نہیں ہیں۔ وہ انسانی حقوق کے محافظ ہیں۔”
خرم پرویز کو پہلے بھی گرفتار کیا جاچکا ہے
این آئی اے نے گزشتہ برس اکتوبر میں بھی خرم پرویز کے دفتر پر چھاپے مارے تھے اور تلاشی کے بعد متعدد تحقیقاتی مواد، فون اور کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیوز، بینک کھاتے وغیرہ ضبط کرلیے تھے۔
خرم پرویز کو ستمبر2016 میں بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس وقت انہیں اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کی جانب سے منعقدہ پروگرام میں شرکت کے لیے سوئٹزرلینڈ جانے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ ان پر احتجاج اور بھارت مخالف نعرے لگانے کے لیے لوگوں کو بھڑکانے کے الزامات عائد کیے گئے اور انہیں سیاہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں 76 دنوں کے بعد رہائی مل سکی تھی۔
خرم پرویز کشمیر میں حقوق انسانی کی جن تنظیموں سے وابستہ ہیں وہ اس متنازعہ خطے میں گزشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات اکھٹی کر رہی ہیں۔ ان کی تنظیم نے بھارتی فورسز کی شہریوں کے خلاف مبینہ زیادتیوں، ماورائے عدالت قتل کے واقعات اور بڑے پیمانے پر نامعلوم قبروں سے متعلق متعدد رپورٹیں تیار کی ہیں۔
گزشتہ ہفتے بھی اس تنظیم نے سری نگر میں مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف فائرنگ کے واقعے کے دوران سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکت اور خاندان کے کسی فرد کی شرکت کے بغیر ایک نامعلوم مقام پر آناً فاناً ان کی تدفین کر دینے کی نکتہ چینی کی تھی۔ اس واقعے کے خلاف زبردست احتجاج کے بعد بالآخر حکام کو قبر کشائی کر کے دونوں شہریوں کی لاشیں ان کے رشتہ داروں کے حوالے کرنا پڑی۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق جموں و کشمیر میں سیاہ قانون یو اے پی اے کے تحت کم از کم 2300 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے تقریباً نصف اب بھی جیلوں میں ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یواے پی اے اور پی ایس اے جیسے سیاہ قوانین کے تحت کشمیر میں لوگوں کو گرفتار کرنا اب ایک عام بات ہے۔
کشمیر میں انسانی حقوق کے وکیل کے طور پر کام کرنے والی میر عرفی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”آپ نے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن پی ایس اے جیسے سیاہ قانون کے تحت آپ کوکبھی بھی بلایا جا سکتا ہے۔” عرفی کا کہنا تھا “ان کے پیشے میں بھی کئی طرح کے خطرات تو ہیں، آپ ڈر کر جیتے ہیں لیکن پھر آپ جینا سیکھ لیتے ہیں۔”