بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں مسلح افراد نے 7 افراد کو ہلاک اور کم از کم 20 کو زخمی کر دیا۔
علاقائی پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ حملہ آوروں نے کیمپ میں ایک مذہبی اسکول میں پڑھنے والے لوگوں کو گولیاں مار کر زخمی کردیا۔
انہوں نے بتایا کہ فائرنگ سے 4 افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے اور ان میں 3 زخمی حالات میں ہسپتال لائے گئے جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔
زخمیوں کے حوالے سے پولیس نے واضح اعداد وشمار نہیں بتائے تاہم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کے ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ تقریباً 20 افراد بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ 20 کے قریب شدید زخمیوں ہسپتال لایا گیا، ان میں سے بہت سے ہاتھ، ٹانگیں اور آنکھیں نہیں ہیں اور ان کی حالت بہت خراب ہے۔
پولیس اہلکار کامران حسین نے کہا کہ ’روہنگیا شرپسند‘ فجر سے قبل دارالعلوم ندوالعلما اسلامیہ مدرسہ میں داخل ہوئے اور لوگوں پر فائرنگ کردی۔
سیکیورٹی فورسز نے فوری طور پر کیمپ کو سیل کر دیا جس میں 27 ہزار سے زائد لوگ رہتے ہیں۔
کیمپ کے رہائشیوں نے سوشل میڈیا پر مدرسے کے فرش پر لاشوں کی تصاویر شیئر کیں تاہم تصاویر کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
مقامی پولیس سربراہ شہاب قیصر خان نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے واقعے کے فورا بعد ایک حملہ آور کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس شخص کو ایک بندوق، 6 گولیاں اور ایک چاقو کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔
29 ستمبر کو قریبی بلوخالی کیمپ میں کمیونٹی کے نمائندے محب اللہ کے قتل کے بعد سے بہت سے روہنگیا کارکن روپوش ہو گئے ہیں یا پولیس اور اقوام متحدہ کے اداروں سے تحفظ مانگ رہے ہیں۔
48 سالہ محب اللہ پنگاہ گزین کمیونٹی کے لیے ایک اہم رہنما بن گئے تھے اور انہوں نے 2019 میں وائٹ ہاؤس میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملاقات کی تھی۔
کچھ کارکنوں نے اس قتل کا ذمہ دار اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (اے آر ایس اے) کو ٹھہرایا ہے۔
اے آر ایس اے ایک عسکریت پسند گروہ ہے جس پر 2017 میں میانمار کی سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے پیچھے ملوث ہونے کا الزام ہے ۔
یہ منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہے اور بنگلہ دیش کے کیمپوں میں اپنا کنٹرول بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے رواں ماہ ایک بیان میں کہا کہ محب اللہ کے قتل کے بعد سے کم از کم ایک درجن کارکنوں نے اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی یو این ایچ سی آر سے رابطہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اہل خانہ اور سول سوسائٹی کے دیگر رہنما جنہیں عسکریت پسندوں نے دھمکی دی تھی حکام نے پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر مشیل بیچلیٹ نے ان کی موت کو ’کیمپ میں عدم تحفظ اور ایک اعتدال پسند سول سوسائٹی کی آوازوں کو خاموش کرنے کی واضح مثال‘ قرار دیا تھا