حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس مؤخر ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کی جمعیت علمائے اسلام (ف) سے ملاقات کو حکومت مخالف سیاسی پیش رفت میں اہم موڑ تصور کیا جارہا ہے جس میں دونوں رہنماؤں نے حکومت کو پارلیمنٹ میں ٹف ٹائم دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زراری نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ میشن (ای وی ایم)، نیب (ترمیمی) آرڈیننس سمیت دیگر منتازع بلز کو متحدہ اپوزیشن کی صورت میں ناکام بنادیا گیا، امید ہے کہ حکومت کی ہر سازش کو متحدہ ہو کر ناکام بنائیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن سے پیپلز پارٹی کا تعلق محض چند روز پر مشتمل نہیں بلکہ اس کی طویل تاریخ ہے، اب ہم پارلیمنٹ میں مل کر کام کرتے ہیں۔
انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ جے یو آئی (ف) کے ساتھ تعلقات قائم رہیں گے اور مولانا فضل الرحمٰن اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد کو یقینی بنانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دھاندلی سے آنے والے حکومت کو انتخابی اصلاحات کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچاتا، حکومت کی تجاویز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت جعلی طریقے سے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرکے گی اس کو آمرانہ عمل تصور کریں جو پارلیمنٹ کی روایت کے منافی ہوگا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت ایک قانون سازی میں شکست کھا چکی ہے، جس کے بعد انہیں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ملتوی کرنا پڑا اور معلوم نہیں کہ اس دوران وہ کیا گل کھلائیں گے، ادھر ادھر منہ ماریں گے اور خریداری کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس دوبارہ طلب کیا تو اسی اتحاد کے ساتھ اس کی نفی کی جائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جولائی 2018 میں متفقہ مؤقف اختیار کیا کہ تھا کہ ہم جعلی حکومت تسلیم نہیں کرتے اور قوم کو ووٹ کا حق واپس ملنا چاہیے، اور چوری شدہ انتخاب پر قائم ہونے والی حکومت قابل قبول نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے پی ڈی ایم سے الگ ہونے اور اب دوبارہ اپوزیشن کا حصہ بننے سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری سے تمام امور پر بات نہیں ہوئی ہے، آج کی ملاقات خیر سگالی کا مظاہر ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری ہمارے مہمان ہے اور روایت کا تقاضہ ہے کہ کوئی ایسی بات نہیں کی جائے جس سے تکلیف پہنچے۔
خیال رہے کہ انتخابی اصلاحات سے متعلق 11 نومبر کو پارلیمنٹ کا اہم مشترکہ اجلاس ہونا تھا لیکن وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے سماجی روابط کی ویب سائٹ پر بتایا تھا کہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس مؤخر کردیا گیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ انتخابی اصلاحات ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے، ہم نیک نیتی سے کوشش کر رہے ہیں کہ ان معاملات پر اتفاق رائے پیدا ہو۔
اپوزیشن نے حکومتی وزرا پر کڑی تنقید کی تھی تاہم چند روز کے دوران حکومت کی جانب سے اپوزیشن رہنماؤں سے رابطہ کی کوشش جارہی ہے جبکہ مشترکہ اپوزیشن کے ارکان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر سے دو بار ملاقات کی ہیں۔
اپوزیشن نے اس بات کی یقین دہانی بھی طلب کی ہے کہ حال ہی میں جاری ہونے والے متنازع آرڈیننس پر پارلیمانی کمیٹی میں بحث کی جائے گی۔
علاوہ ازیں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو ارسال کیے گئے مراسلے میں مشترکہ مفادات کی تمام اہم اصلاحات پر پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر جامع فیصلہ سازی اور اتفاق رائے پیدا کرنے پر زور دیا ہے۔