برطانیہ کے دو اہم وزرا مستعفی، بورس جانسن کی حکومت ختم ہونے کا خطرہ

برطانیہ کے وزیر خزانہ اور صحت نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا جس کے نتیجے میں وزیر اعظم بورس جانسن کی وزارت عظمیٰ کا خاتمہ ہوسکتا ہے کیونکہ جانسن نے اپنی انتظامیہ کی ساکھ کو خراب کرنے والے تازہ ترین اسکینڈل پر معافی مانگنے کی کوشش کی تھی۔رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ رشی سنک اور وزیر صحت ساجد جاوید دونوں نے یکے بعد دیگرے چند منٹوں کے فرق سے وزیر اعظم کو استعفیٰ بھیجا جس میں دونوں نے معیار کے مطابق حکومت چلانے کی ان کی اہلیت پر سوالات اٹھائے۔یہ استعفے اس وقت سامنے آئے جب بورس جانسن نے جنسی بدسلوکی کی شکایات کا سامنا کرنے والے رکن پارلیمنٹ کرسٹوفر پنچر کو اہم وزارت دی اور پھر بعد میں انہیں یہ عہدہ سونپنے پر معافی مانگی۔

بعدازاں وزیر اعظم نے بعد میں ندیم زہاوی کو وزیر خزانہ مقرر کیا۔

رشی سنک اور ساجد جاوید دونوں نے پہلے ہی بورس جانسن کی انتظامیہ کے طرز عمل اور ان کے ڈاؤننگ اسٹریٹ کے دفتر اور رہائش گاہ پر پارٹیوں کے سبب ہونے والے اسکینڈل میں ان کی برملا حمایت کی تھی۔

رشی سنک نے کہا کہ میرے لیے چانسلر کا عہدہ چھوڑنا آسان نہیں تھا لیکن عوام توقع کرتے ہیں کہ حکومت قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے حکومت چلائے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری بطور وزیر آخری نوکری ہو سکتی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اس معیار کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے اور اسی لیے میں استعفیٰ دے رہا ہوں۔

ساجد جاوید نے کہا کہ بہت سے قانون سازوں اور عوام کا حکومت کرنے کے حوالے سے بورس جانسن پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔

ساجد جاوید نے بورس جانسن کو لکھے گئے خط میں کہا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ یہ بات میرے لیے واضح ہو چکی ہے کہ یہ صورتحال آپ کی قیادت میں نہیں بدلے گی اور اس لیے آپ نے میرا اعتماد بھی کھو دیا ہے۔

ان کے استعفے اس وقت سامنے آئے جب بورس جانسن نے ٹیلی ویژن پر قانون ساز کرسٹوفر پنچر کو کنزرویٹو پارٹی میں اہم عہدے پر تعینات کرنے پر معذرت کی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں