ایران کا جوہری پروگرام ‘تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے’، سربراہ آئی اے ای اے

عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافیل گراسی نے ہسپانوی اخبار کو انٹریو میں کہا ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام میں تیز رفتاری سے پیش رفت ہو رہی ہے اور ایجنسی کو اس بارے میں بہت کم علم ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق رواں برس جون میں ایران نے جوہری پروگرام کی نگرانی کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت تنصیب کیے گئے اہم آلات نکالنا شروع کردیے تھے۔

سربراہ آئی اے ای اے نے کہا کہ 2018 میں امریکا کی طرف سے دستبردار ہونے کے پیش نظر اس جوہری معاہدے کو بحال کرنا موجودہ وقت میں بہت نقصاندہ عمل ہوگا۔

رافیل گراسی نے اخبار ‘ایل پیس’ کو انٹریو میں کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تقریباً پانچ ہفتوں سے جوہری پروگرام پر میری نظر بہت کم رہی ہے اور اگر کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو میرے لیے اس پوری پہیلی کو دوبارہ ترتیب دینا بہت مشکل ہوگا۔

انہوں نے جون میں کہا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی کے لیے نصب کیے گئے مانیٹرنگ کیمروں میں سے کم از کم کچھ بحال کرنے کے لیے صرف تین سے چار ہفتوں کا وقت لگے گا جن کو آئی اے ای اے کی ایران کی اہم ترین جوہری سرگرمیوں کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہونے سے پہلے منقطع کردیا گیا تھا۔

تاہم جب سے امریکا کے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو اس معاہدے سے الگ کرتے ہوئے ایران پر 2018 میں نئی پابندیاں عائد کی ہیں، تب سے تہران نے اپنی جوہری سرگرمیوں پر عائد کی گئیں اس معاہدے کی متعدد پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

مغربی ممالک نے خبردار کیا تھا کہ ایران جوہری بم بنانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کے قریب پہنچے کے قابل ہوگیا ہے، تاہم تہران نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

اپنے انٹرویو میں آئی اے ای اے کے سربراہ نے کہا کہ تمام معاملات کو نئے سرے سے تشکیل دینا ناممکن نہیں ہے لیکن ایسا کرنے کے لیے بہت پیچیدہ امور سے گزرنے اور مخصوص معاہدہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔

2015 کے ایرانی جوہری معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات مارچ میں شروع ہوئے تھے۔

رافیل گروسی نے کہا کہ نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان گزرے ہوئے ہفتوں کے بارے میں فکر مند اور پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایجنسی کو ڈیٹابیس نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی بھی معاہدہ نازک صورتحال پر بیکار جائے گا کیونکہ اگر ہمیں یہ پتا نہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے تو پھر ہم یہ کیسے طے کر سکتے ہیں کہ کتنا مواد برآمد کرنا ہے، کتنے سینٹری فیوجز کو استعمال کیے بغیر چھوڑنا ہے۔

رپورٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ ایران اپنے زیر زمین فوردو پلانٹ میں جدید مشینوں کے استعمال سے افزودہ یورینیم کو مزید بڑھا رہا ہے، اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ایرانی پروگرام کی تکنیکی پیش رفت مستحکم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں