اہم امریکی عہدیداروں کے دوروں کی بدولت پاک امریکا تعلقات بہتری کی جانب گامزن

پاکستان اور امریکا کے درمیان دو طرفہ تعلقات ‘کیبل گیٹ’ اسکینڈل کے وجہ سے اتار چڑھاؤ کے بعد دوبارہ رفتار پکڑ رہے ہیں اور دونوں فریق ماضی قریب کی نسبت اب کہیں زیادہ تواتر سے رابطے میں ہیں۔رپورٹ کے مطابق دونوں فریقوں نے حالیہ ملاقاتوں میں اپنے تعلقات کو وسیع تر کرنے پر اتفاق کیا ہے جو کہ سیکیورٹی، اسٹریٹجک خدشات اور افغانستان کے روایتی شعبوں سے باہر نظر آتے تھے۔اس مقصد کے لیے دونوں فریقوں نے گزشتہ ہفتے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معیشت پر ملاقاتیں کیں جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس کے علاوہ صحت کے شعبے کے حوالے سے بھی جلد اجلاس ہونے والا ہے

گزشتہ دو ہفتوں بالخصوص سفیر ڈونلڈ بلوم کی جانب سے باضابطہ طور پر چارج سنبھالے جانے کے بعد مصروف سرگرمیوں کا ایک سلسلہ دیکھا گیا، اگرچہ انہوں نے 11 اپریل 2022 کو حلف اٹھایا لیکن وہ مئی کے آخر میں پاکستان پہنچے تھے۔

اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ موجودہ ہلچل کے پیچھے وجوہات صرف سیاسی نہیں ہیں، کووڈ پابندیوں کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ حالیہ ہفتوں میں پچھلے برسوں کے مقابلے میں امریکی حکام کے زیادہ دورے دیکھنے میں آئے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک مکمل سفیر، ناظم الامور سے کہیں زیادہ بااختیار ہوتا ہے اور سفیر ڈونلڈ بلوم کی آمد یقینی طور پر چیزوں کو تیز سے آگے بڑھانے میں مدد کر رہی ہے۔

وزیر اعظم سے اپنی پہلی ملاقات میں سفیر نے افغانستان سے امریکی اہلکاروں اور پناہ گزینوں کے انخلا کے دوران فراہم کی جانے والی فوری اور مؤثر مدد پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا، دونوں فریقوں نے امن و استحکام کو فروغ اور افغانستان میں انسانی بحران کو روکنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔

ملاقات کے بعد جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کو باہمی احترام، اعتماد اور مفاد کی بنیاد پر مزید فروغ دینے کی پاکستان کی خواہش کا اظہار کیا۔

ملاقات میں وزیرِ اعظم نے سفیر کو امریکی کمپنیوں کو پاکستان کی جانب سے پیش کی جانے والی ’اقتصادی اور آبادیاتی صلاحیت‘ سے آگاہ کیا ،جس میں سرمایہ کاری کے لیے یو ایس ڈیولپمنٹ فنانس کارپوریشن کی جانب سے حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح ہے اور اتحاد نے امریکی خدشات کو دور کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔

پاکستان امریکا کے ساتھ اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کی بحالی کا بھی خواہاں ہے جو کہ 2016 سے معطل ہیں اور جس پر امریکی فریق بظاہر زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔

واشنگٹن کا خیال ہے کہ اسٹریٹیجک ڈائیلاگ میں مواد کی کمی ہے اور پاکستان نے اسے عوامی نقطہ نظر سے مفاد کے لیے زیادہ استعمال کیا لیکن کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکا اس سمت میں پیش رفت کر کے بھارتی کو پریشان نہیں کرنا چاہتا اور اس کے بجائے ورکنگ گروپ میٹنگز کی طرف مائل ہے۔

پاکستانی نژاد اعلیٰ عہدیدار کا دورہ

اس کے متوازی امریکی نمائندہ خصوصی برائے تجارتی امور دلاور سید کا دورہ تھا، دلاور سید بائیڈن انتظامیہ میں سب سے اعلیٰ ترین عہدے پر تعینات پاکستانی نژاد امریکی ہیں، وہ تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے امکانات تلاش کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔

اتوار کو اپنے دورے کے اختتام پع دلاور سید نے کہا کہ امریکا کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان کی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے تاکہ امریکی کاروبار کے لیے ملک میں سرمایہ کاری، کام کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں آسانی ہو۔

اپنے دورہ اسلام آباد کے دوران دلاور سید نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر تجارت سید نوید قمر سے ملاقاتیں کیں اور امریکا اور پاکستان کے درمیان اقتصادی شراکت داری کی دہائیوں پرانی تاریخ پر تبادلہ خیال کیا۔

ڈی ایف سی میں یورپ اور وسطی ایشیا کے لیے علاقائی پالیسی لیڈ کی گایا سیلف کے ہمراہ دورہ کرنے والے دلاور سید نے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سے بھی ملاقات کی اور مختلف شعبوں بشمول قابل تجدید توانائی، ٹیکسٹائل اور زرعی شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی۔

وزیر خزانہ نے امریکی وفد کو موجودہ حکومت کو درپیش معاشی چیلنجز اور ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے موجودہ حکومت کی تشکیل دی گئی پالیسیوں میں اصلاحات کے بارے میں آگاہ کیا، اس سلسلے مزید بتایا گیا کہ ان اصلاحات کا مقصد جی ڈی پی کی نمو کو بڑھانا، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا اور ملک کی برآمدات کو بڑھانا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں