یورپی ملک آئس لینڈ کے پارلیمانی انتخابات میں دوبارہ گنتی کے بعد جائزوں کے برعکس خواتین کے مقابلے میں مرد اراکین بڑی تعداد میں کامیاب قرار پائے ہیں جس کے بعد ایسی پارلیمنٹ کی تشکیل کی راہ ہموار ہو گئی ہے جس میں مردوں کی اکثریت ہو گی۔
ٓ ہفتے کو ہونے والے انتخابات میں 63 نشستوں والی پارلیمنٹ کے لیے 30 خواتین منتخب ہوئیں جب کہ گزشتہ انتخابات میں یہ تعداد 24 تھی۔
دوبارہ گنتی سے پہلے اتوار کو دیر گئے تک جو نتائج سامنے آ رہے تھے ان میں 33 خواتین منتخب ہوتی نظر آ رہی تھیں تاہم دوبارہ گنتی کے بعد یہ تعداد کم ہو گئی۔
نیشنل الیکٹورل کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر نتائج شائع نہیں کیے اور فوری طور پر ادارے کا ردِعمل بھی حاصل نہیں کیا جا سکا۔
انٹر پارلیمنٹری یونین کے اعداد و شمار کے مطابق روانڈا، کیوبا اور نکاراگوا دنیا کے ایسے تین ممالک ہیں جہاں پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ ہے جب کہ میکسیکو اور متحدہ عرب امارات میں خواتین اور مرد 50، 50 فی صد نمائندگی رکھتے ہیں۔
یورپ کے اندر سوئیڈن میں 47 فی صد اور فن لینڈ میں 46 فی صد اراکین پارلیمنٹ خواتین ہیں۔
نارتھ اٹلانٹک آئس لینڈ میں واقع ملک آئس لینڈ کی آبادی تین لاکھ 71 ہزار ہے اور ورلڈ اکنامک فورم کی مارچ میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ملک میں خواتین اور مردوں کی آبادی کا تناسب 50، 50 فی صد ہے۔
رائے عامہ کے جائزوں میں اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ آئس لینڈ میں اتحادی حکومت اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ لیکن سینٹر رائٹ کی پروگریسو پارٹی کی حمایت میں اضافہ دیکھا گیا جس کے سبب وہ 2017 کے مقابلے میں پانچ سیٹیں زیادہ لینے میں کامیاب ہوئی ہے، اتحادی حکومت کی نشستوں کی تعداد، آر یو وی کے مطابق 37 ہو گئی ہے۔
موجودہ حکومت میں وزیرِ اعظم کیٹرن جیکبز ڈوٹرز کی بائیں بازو کی گرین موومنٹ، کنزرویٹو انڈیپینڈینس پارٹی اور پروگریسوس پارٹی شامل ہیں۔ ان پارٹیوں کے اراکین نے انتخابات سے قبل کہا تھا کہ اگر وہ اکثریت قائم رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ اتحاد کو جاری رکھنے پر گفت و شنید کریں گے۔
لیفٹ گرین موومنٹ کو آٹھ سیٹیں ملی ہیں۔ 2017 کے انتخابات میں اس کی سیٹوں کی تعداد 11 تھی جو اب کم ہو گئی ہے۔ حالاں کہ اس وقت دو پارلیمنٹیرینز نے انتخابات کے فوری بعد پارٹی چھوڑ دی تھی۔
صدر گڈنی جوہانسن نے کہا ہے کہ وہ نئی حکومت بنانے کا مینڈیٹ کسی جماعت کو نہیں دیں گے بلکہ انتظار کریں گے کہ تینوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔
انڈیپینڈینس پارٹی 16 نشستوں کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہے اور گزشتہ انتخاب کے بعد اس کی پوزیشن میں فرق نہیں آیا ہے۔ پارٹی رہنما اور سابق وزیرِ اعظم یارتی بن ڈکساں نے، آر یو وی کے مطابق، کہا ہے کہ وہ پر امید ہیں کہ تینوں جماعتیں مل کر اتحاد بنا لیں گی اور وہ نئی حکومت کی قیادت کا مطالبہ نہیں کریں گے