حکومت نے ماہی گیروں اور امدادی تنظیموں کے مسلسل دباؤ کے سبب بالآخر روہنگیا مسلمانوں سے بھری ایک کشتی کو بین الاقوامی پانیوں میں دھکیلنے کے اپنے منصوبے میں تبدیلی کی۔ جکارتہ نے پہلے انہیں پناہ دینے سے منع کر دیا تھا۔
انڈونیشیا کی حکومت نے 29 دسمبر بدھ کے روز 120 روہنگیا مسلمانوں کے ایک گروپ کو بتایا کہ انہیں ملک میں پناہ لینے کی اجازت دی جائے گی۔ ابتدائی طور پر حکومت نے سمندر میں پھنسی ہوئی ان کی کشتی کو ملک میں داخل ہونے سے منع کر دیا تھا۔
ایک روز قبل منگل کو انڈونیشیا کے حکام نے کہا تھا کہ وہ روہنگیا کی کشتی میں سوار پناہ کے متلاشی لوگوں کو سمندر میں ہی کھانا، ادویات اور پانی مہیا کریں گے تاہم انہیں انڈونیشیا میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تاہم اس معاملے نے خود انڈونیشیا کے لوگوں اور پھر بین الاقوامی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی اور اس طرح حکومت کو اپنا موقف تبدیل کرنا پڑا اور روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ساحل پر اترنے کی اجازت دینی پڑی۔
انڈونیشیا کی سیاسی، قانونی اور سیکورٹی امور کی وزارت کے ایک اہلکار وجایا نے کہا، “انڈونیشیا کی حکومت نے انسانیت کے نام پر، فی الوقت آچے میں بیریئون ضلع کے پاس ایک کشتی پر سوار پناہ کے متلاشی روہنگیا افراد کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے مسافروں میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں۔”
روہنگیا پناہ گزین کئی روز سے سمندر میں بھٹک رہے تھے
اتوار کے روز سب سے پہلے ماہی گیروں نے سمندر میں روہنگیا تارکین وطن کی کشتی کو دیکھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کشتی میں سوار بیشتر افراد، بہت کمزور مگر بظاہر ان کی صحت ٹھیک لگ رہی تھی ۔”
ماہی گیر اس کشتی کو کھینچنے سے قاصر تھے تاہم وہ ان لوگوں کو کھانا، پانی اور کپڑے فراہم کرتے رہے تھے۔ روہنگیا تارکین وطن نے ماہی گیروں کو بتایا کہ وہ گزشتہ 28 روز سے سمندر میں بھٹک رہے ہیں اور ان کا ایک ساتھی پہلے ہی ہلاک ہو چکا ہے۔
انڈونیشیا کے حکام نے پہلے کہا کہ وہ روہنگیا کی اس کشتی کو بین الاقوامی پانیوں میں پیچھے دھکیل دیں گے تاہم جب ماہی گیروں کی جانب سے بنائی گئیں اس کشتی کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو عوام میں ان کے تئیں ہمدردی کاجذبہ پیدا ہوا اور حکام پر انہیں بچانے کا دباؤ بڑھا۔
انڈونیشیا میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان میں کہا، “اس کا سہرا آچے کے ماہی گیروں کے سر ہے جنہوں نے سخت محنت کے ساتھ ہی خطرات مول لیے تاکہ ان بچوں، خواتین اور مردوں کو ساحل تک لایا جا سکے۔”
جکارتہ پر پناہ گزینوں کو تسلیم کرنے کا دباؤ
پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے، ایمنسٹی اور انڈونیشیا میں انسانی حقوق کے نو اداروں پر مشتمل گروپ ‘سول سوسائٹی کولیشن’ نے جکارتہ حکومت پر پناہ کے متلاشی ان روہنگیا مسلمانوں کو قبول کرنے پر زور دیا۔
سول سوسائٹی کولیشن نے اپنے ایک بیان میں کہا، “روہنگیا نسلی گروہ ایک کمزور، بے وطن اور بے سہارا لوگوں کا گروہ ہے جسے تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔” اقوام متحدہ کے ادارے نے اس ضمن میں روہنگیا شہریوں کے لیے انتظامات کرنے میں مقامی لوگوں کی امداد کی پیشکش کی ہے۔
میانمار میں روہنگیا نسلی گروپ کے خلاف کئی برس پہلے ہی فوجی کریک ڈاؤن شروع ہوا تھا جس سے بچنے کے لیے اب تک سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا میانمار سے فرار ہو چکے ہیں۔ میانمار میں اس سال کے اوائل میں فوجی بغاوت سے کافی پہلے سے ہی اس مذہبی اقلیتی گروپ پر فوجی ظلم و ستم جاری ہیں۔
انڈونیشیا نے اب تک اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن پر دستخط نہیں کیا ہے اور اسے تیسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنے والے لوگوں کے لیے بنیادی طور پر ایک ٹرانزٹ ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
میانمار سے روہنگیا پناہ گزین گزشتہ کئی برسوں سے نومبر اور اپریل کے درمیان ملائیشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا جیسے ممالک کی جانب سفر کرتے رہے ہیں، جب خطے کے سمندر قدر پرسکون ہوتے ہیں۔